بارود – ساجد بلوچ

580

بارود

تحریر: ساجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر آپ پاکستان کی نقطہ نظر سے دیکھیں کہ چند بلوچ ناراض ہیں ،پاکستان کے “دشمنوں”سے مال بٹورکر “اسلام ” کے قلعے پر حملہ آورہوتے ہیں ، اس مال سے ایک حصہ سڑکوں پر احتجاجی خواتین اور بچوں کے لیے ہے جو “مال”لے کر پاکستان کی بدنامی کا خوامخواہ سبب بن رہے ہیں ورنہ انہیں کوئی دکھ ،کوئی تکلیف نہیں۔

اگرآپ حقیقت کی عینک لگاکر دیکھیں تو بلوچ بذات خد ایک بارود بن چکاہے ،آپ سمی کی اندازِ بیان دیکھیں جو آپ کی آنکھوں میں آنکھ ملاکر بات کرتی ہے، ان کی آنکھیں بارود سے کیاکم ہیں؟ نہیں، جناب اسے ملنے سے گریز کریں اس کی آنکھیں کسی بھی وقت بلاسٹ ہوسکتی ہیں۔

آپ مہرنگ کی زبان کو دیکھیں، اُس کی زبان بارود سے کم نہیں ہے، اُس کی زبان کسی بھی وقت کسی چوک میں بلاسٹ ہوسکتی ہےاور آپ کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔خیرمہرنگ پھربھی پڑھی لکھی ہے ، تقریر کے ہنرپر خوب دسترس رکھتی ہے۔ کہیں نہ کہیں تقریر کے جوہردکھاکر اپنی بڑھاس نکال سکتی ہے ۔ مجھے خوف ہے زرینہ کی خاموشی سے، یقین کریں ،میں جب زرینہ کے بارے میں سوچتاہوں تو میرا روح کانپ اُٹھتا ہے یہ لڑکی توسراپا بارود ہے، یہ کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے یہ اگر بھڑک اٹھی تو پورا پاکستان جل کر راکھ کا ڈھیر بن سکتاہے۔

میرا مانیں تو پہلے سے اس کی کوئی بندوبست کریں ،آپ کی بھلائی اسی میں ہے کہ اس لڑکی کو اٹھا کر کسی سمندر میں پھینک دیں تو یہ ملک بچ سکتا ہے ورنہ آپ کا وجود خطرے سے خالی نہیں ہے اور ایسے بہت سی لڑکیاں ہیں جو اس سے پہلے یہ نہیں جانتے تھے کہ کوئی ایسا راستہ بھی ہے اب تو شاری نے یہ راہ کچھ اس طرح صاف کردی کہ لوگ دنگ رہ گئے ،اب کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی بانڑی ،کوئی حانی، کوئی ماہین، کوئی صد گنج بارود بن کر آپ پر ٹوٹ پڑسکتی ہے۔ اب تو ہر بلوچ کے دل گردے پھیپھڑے ،دماغ ، استخون بارود سے برے پڑے ہیں کسی بھی وقت، کہیں بھی بلاسٹ ہوسکتے ہیں۔

اس مسئلے کا کوئی حل کسی کو بھی نظر نہیں آتاہے سوائے اس کے کہ یا تو آپ بلوچ کےوجودکا خاتمہ کریں یا یہ ملک چھوڑ کر اپنے بچی کچھی عزت کو غنیمت جان کر یہاں سے نکل جائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں