اُداس شاہراؤں پہ چلتے ہوئے پاؤں ہمارے ہی تھے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
نیا لباس پرانی تصویروں کے ساتھ جا بجا بکھرے پڑے ہوئے ہیں۔بس نیا لباس ہی نہیں پر نئی شاندار پگڑیاں،بلوچی جوتے،عطر،پرفیومز،اور کئی سوغات،پر دُکھ کی بات یہ ہے کہ ان لباسوں کے آس پاس جو تصویریں رکھی ہیں وہ کئی کئی سال پرانی ہیں،کچھ بیس سال پرانی ہیں۔کچھ سترہ سال پرانی ہیں،کچھ پندرا سال پرانی ہیں۔کچھ بارا سال پرانی ہیں اور کچھ دس سال
کیا بکھری بس تصویریں ہیں؟یا ماہ و سال؟
یہ درد سے بھری تصویریں ہیں
ان ہی تصویروں کو ہاتھوں سے تھامیں اور نین بہائے بچیاں بھی جوان ہوئی ہیں
یہ درد کی بے خبری کے ماہ و سال ہیں
یہ ڈر اور خوف کے ماہ سال ہیں
یہ رتجگے کے ماہ سال ہیں
یہ ایسے سال ہیں کہ بیٹیوں نے درد کا دامن تھاما،شاہراؤ ں پہ بے منزلوں کے سفر کیے اور معلوم ہی نہیں ہوئے کہ کب جسموں پہ پڑے چولے پاؤں میں پڑی جوتیاں تنگ ہونے لگیں اور وہ بڑی ہو گئیں
اب ان کے جسموں پر پورے کپڑے،پاؤں میں بڑی جوتیاں اور سروں پر پرچموں جیسے دوپٹے ہیں
پر ہاتھوں میں تصویریں وہی،آنکھوں میں آنسو وہی اور دل میں درد وہی
نہ پرانی فریم کی ہوئی تصویربدلی نہ آنسو تہمیں اور نہ ہی دل کا درد رُکا!
ان پیروں نے بے منزل کے بہت سا سفر کیا ہے۔ان آنکھوں نے بہت سے آنسو بہائے ہیں۔ان نینوں نے بہت سے رتجگے کیے ہیں،ان ہاتھوں نے درد جیسی تصویریں تھامی ہیں،دل دھڑکا ہے رُکا ہے،رُکا ہے دھڑکا ہے۔بہت سے جانے اور ان جانے خوف میں رہی ہیں۔گمشدہ انسانوں کا پتا پوچھا ہے،لکھا ہے اور پرچم جیسے دوپٹے کے کونے میں امانتاً باندھا ہے۔درد کو دیکھا ہے اور جھیلا ہے۔سچے جھوٹے واعدے سنے ہیں،لیڈروں اور منصفوں کے بھاشن سنے ہیں۔سفر کیے ہیں۔درد کا بار جھیلا ہے۔ بیٹیاں ماؤں کے دامنوں کو سنبھالے چلی ہیں۔ایسا نہیں کہ جب وہ دردیلے سفروں پہ چلی ہیں تو بس ان کے پیروں نے سفر کیا ہے!نہیں ایسا ہر گز گز نہیں ہے وہ جب بھی چلی ہیں تو دامنِ تر سے چلی ہیں۔بھیگے نینوں سے چلی ہیں۔رتجگے آنکھوں سے چلی ہیں۔منتظر آنکھوں سے چلی ہیں۔ڈوبے ڈوبے دل سے چلی ہیں۔ہونی ان ہونی سی کیفیت میں چلی ہیں۔شکست دل اور بلند پرچم جیسے دوپٹے سے چلی ہیں،ہاتھوں میں تھامے درد جیسی تصویروں سے چلی ہیں۔شال کی گلیوں میں ان مسافروں کے پا نقش ہیں۔کلاچی کے کُن پہ ان کے پیر دیکھے جا سکتے ہیں۔شہر اقتدار کی سڑکوں پر وہ پیر دیکھے جا سکتے ہیں جو شال کی گلیوں سے چلے ماوری اور سسئی کے دیس سے ہوکے ہیر کے دیس پہنچے!
وہ دردیلے پیر بس شاہراؤں پر نہیں پر ملک کے ماتھے پر ثبت ملیں گے
پھر بھی تم سفروں کی داستان پوچھتے ہو
ان سفروں کی داستان اتنی ہی طویل ہے جتنے درد میں روتی ماں کے آنسو
بیٹوں کے نازک نفیس پیروں کا سفر
بہنوں کی سفر میں ٹوٹتی جوتیوں کا درد!
تم ماں کی آنکھوں سے نکلے آنسوؤں کو گن پاؤ گے؟
باقی درد کی تو بات ہی یہا ں عبث ہے بس ماؤں کی آنکھوں سے نکلے آنسو گنو اور دیکھ پاؤ اس درد کو جو اس وقت کراچی اور شال کی سڑکوں پر درد کی ماند بکھرا ہوا ہے آج عید کا دن ہے ہمارے جسموں پر نیا لباس ہے اور ماؤں کی آنکھوں میں وہی پرانا درد،ہمارے پیروں میں نئے جوتے ہیں اور بہنو ں کے سروں پر وہی سفر کا میلا دوپٹہ۔کچھ بھی نہیں بدلا اور نہیں معلوم کب بدلے گا
یہ مائیں تھک گئی ہیں آخر کتنا چلیں؟
اور چلیں تو کس گلی جائیں؟
اس دیس کی سب گلیاں تو صلیب کو جا تی ہیں
یہ مائیں اک بار نہیں کئی کئی بار مصلوب ہوئی ہیں
ان ماؤں کو بہت پاس سے دیکھو
بہنوں اور بیٹیوں کو قریب سے دیکھو
تو ایسے دیکھو گے
جیسے مریم نے یسوع کو دیکھا
اور یسوع نے مریم کو دیکھا
جیسے یروشلم نے درد کو دیکھا
اور درد نے یروشلم کو دیکھا
ایسے ہی شال کی گلیاں درد سے بھری ہوئی ہیں
ان ماؤں کی ایسی ہی حالت ہے جیسے مریم کی تھی مریم نے جب یسوع کو ہجوم کے ہاتھوں مصلوب دیکھا تھا تو آسماں کی طرف منھ کر کے کہا تھا کہ
”ہمیں ان آسمانوں سے منھ پھیرلینا چاہیے جو ہمارے گناہوں میں شریک ہیں!“
کیا بلوچستان کی ماں بلوچ دھرتی کے آسماں سے منھ پھیر لیں؟
کیا بلوچستان کا آسماں ان ماؤں کے گناہوں میں شریک ہے؟!
یہ مائیں اس دیس سے ہیں
جہاں سرد زمینوں پر پاؤں کے نشان نہیں بنتے
جہاں جسموں کی بھیڑ میں دکھ آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہیں
وہاں بے بسی اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے
ہم دیکھتے ہیں اور دیکھتے رہ جاتے ہیں
لوگ گزرتے ہیں اور گزرتے رہتے ہیں۔آوازیں سنائی دیتی ہیں اور سنائی دیتی رہتی ہیں
اب دعاؤں کا حصار نہیں کھیچنا چاہیے اب ہمیں دیکھنا چاہیے رنج ہمارے گھروں میں کس در سے داخل ہوتے ہیں۔اور ہولناک خواب کیسے ہمارے چاروں طرف دندناتے ہیں۔شاہراؤں پر بکھری تصویروں کا رنگ اُڑتا جا رہا ہے اور بیٹیوں ماؤں اور بہنو ں کا درد بڑھتا جا رہا ہے۔رات ابھی تک ہمارے سروں پر ٹھہری ہوئی ہے۔اور دھوپ نے ان کے تلوؤں کو بے حس کر دیا ہے۔
پر خدا کب دیکھے گا
جب کے مذہبی صحیفوں میں تو لکھا ہوا ہے کہ
”خدا ایک ہے،خدا دیکھتا ہے،اسے دیکھنا چاہیے!“
پر آخر کب؟
اب اگر آسماں کے خدا کو نہیں تو جب بھی زمینی خداؤں کو تو ان تصویروں کو دیکھنا چاہیے
جو شال کی گلیوں سے لیکر کلاچی کے کُن تک بکھری ہوئی ہیں
اور مائیں نئے جوتے اور نئے لباس کے ساتھ ان کے لیے منتظر ہیں
جو پرانے فریم،ماؤں کے نینوں اور بیٹیوں کے دلوں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں
یاد کی ماند!
دردِ دل کی ماند
پھر بھی تم ماؤں کے سفروں اور پیروں کا قصہ پوچھتے ہو؟
شال کی گلیوں میں آؤ اور بے بس ماؤں سے پوچھو
مائیں اپنے زخمی پیروں پر نظر ڈالیں اور دل حال سے نہ بھی کہیں
جب بھی ان کی بولی یہی ہو گی کہ
”اُداس شاہراؤں پہ چلتے ہوئے پاؤں ہمارے ہی تھے!“
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں