جبری طور پر لاپتہ اصغر بلوچ کی بہن نے کہا ہے کہ ایک سال کے عرصے سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ اپنے بھائی کی واپسی کی منتظر ہوں، بغیر کسی الزام و جرم کے بھائی کو ماورائے قانون جبری طور پر لاپتہ رکھا گیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں کیا۔
گذشتہ سال27 جون کو تربت سے لاپتہ ہونے والے بلیدہ کے رہائشی اصغر بلوچ ولد محمد بلوچ کے لواحقین نے اس کے جبری گمشدگی کے کوائف تنظیم کے پاس جمع کئے۔
انہوں نے کہا کہ اصغر بلوچ کو جمیل نامی شخص مذکورہ روز اپنے ہمراہ یہ کہہ کر لے گیا کہ آپ کو پیٹرول کا ٹوکن لے کر دونگا، جہاں راستے میں ایک کالے رنگ کی سرف گاڑی اور ساتھ فاصلے پر فرنٹیئر کور کی گاڑی کھڑی تھی، جب اصغر سرف گاڑی کے قریب پہنچ گیا تو گاڑی سے خفیہ ادارے کے اہلکار باہر آئیں جبکہ ایف سی اہلکار بھی پہنچ گئے۔
لواحقین نے کہا کہ چشم دید افراد نے تصدیق کی کہ مذکورہ اہلکاروں نے اصغر کے منہ پر کپڑا ڈال کر گاڑی میں پھینک کر اپنے ہمراہ لے گئے۔
لواحقین نے بتایا کہ اصغر بلوچ کو وردی پہنے فرنٹیئر کور اور سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکار اپنے ہمراہ لے گئے اس منظر کو بھرے بازار نے دیکھا لیکن چشم دیدگواہوں کو اس حوالے سے بات نہ کرنے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔
لاپتہ اصغر بلوچ کے لواحقین نے کہا کہ دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کی طرح ہم بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ اصغر بلوچ پر اگر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کرکے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں، اس طرح ماوارائے قانون کسی کو جبری طور پر لاپتہ کرنا کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں۔