آریسر یروشلم کی گلیوں میں ہوتا تو نبی ہوتا ۔ محمد خان داؤد

366

آریسر یروشلم کی گلیوں میں ہوتا تو نبی ہوتا

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کیا کبھی موروں کی آوازیں بھی ریاست کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں؟
کیا بارشوں کے قطروں سے بھی مضبوط ریاست کے پیر تھرتھرا سکتے ہیں؟
کیا محبوبہ کے گول پستانوں کی ماند کسی لے لکھے الفاظ بھی کسی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں؟
کیا محبت کی باتیں کسی کے لیے قید و بند کی مصیبت بن سکتی ہیں؟
کیا کسی کی میٹھی زبان اور شیریں کلام بھی کسی کے لیے دردِ سر بن سکتا ہے؟
کیا کسی کا قلندر ہونا؟
مہ پینا،مست ہونا،عشق کرنا؟
کیا کسی کا ملنگ ہونا؟
کیا کا دھرتی ماں سے محبت کرنا؟
کیا کسی کا بہت سی کتابیں پڑھنا اور بہت سا لکھنا بھی کسی کا جرم بن سکتا ہے؟
کیا کسی کا لطیف کو سمجھنا اور ویسا ہی دیگر لوگوں کو سمجھنا بھی جرم ہو سکتا ہے؟
کیا کسی کا جی ایم سید سی پہلی اور آخری محبت بھی سزا کا حوالہ بن سکتی ہے؟
کیا کسی کو سندھ دھرتی سے ایسی محبت ہو سکتی ہے جیسی محبت کسی ماں سے ہو،معصوم بچوں سے ہو یا پھر اس محبوبہ سے ہو جس کی ایک جھلک دیکھ لینا ہی زندگی کا سرمایہ ٹہرے!
کیا کسی نے بھوکا رہ کر عالمی انقلاب کی کتابیں پڑھی ہونگی اور کیا کسی نے سستے مہ پی کر سندھ کا محبت بھرا کیس لکھا ہوگا؟
کیا کسی نے زندگی بھر ایک ہی محبت کی ہو اور زندگی کے آخری دنوں تک اپنی اسی محبت سے منسلک رہا ہو!
کیا کسی نے بس دھرتی سے محبت کے جرم میں اپنے نازک ہونٹوں پر بندوقوں کے بٹ کھا ئے ہوں
ماں کی گالیاں سنی ہوں اور دھمکی بھری آواز میں یہ سنا ہو کہ
’’اب اس کتے کی بیوی کو یہاں لاکر ننگا کرو!‘‘
رات کی تاریکی میں بس اس لیے ڈرایا دھمکا یا گیا ہوں کہ اسے دھرتی سے محبت ہے۔

کیا کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس کا پیچ سندھ سے جوانی میں اڑا ہو اور جاتی جوانی ہی کیا پر جاتی زندگانی تک وہ اسی پیچ سے اڑا رہا ہو!
کیا کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے سیا سی مخالف اسے بہت لعن طعن کرتے ہوں پھر خود ہی شرمسار ہوکر کہتے ہوں کہ،،وہ ایسا نہیں ہے ہم اس کی دشمنی میں اسے کچھ زیا دہ ہی برا کہہ گئے!،،
کیا کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جب وہ سیا سی مخالفین کی محفلوں میں شریک ہو تو وہ سیا سی مخالفین اس کے لیے ادب میں اُٹھ کھڑے ہوں!
یہ سارے جرم محبت کے رسول عبدالواحد آریسر کے تھے جو سندھ کی محبت کا اسیر تھا
وہ جو کسی کا دشمن نہ ہو اس کے پاس بس محبت کا جنم ہو پر دھرتی،دھرتی کی ہوائیں چھوڑ کر سب اس کے دشمن بن بیٹھیں!
پر اس کی محبت کا مہور بھی دھرتی ہو اور جس کی دشمنی کا مہور بھی دھرتی ہو!
وہ جو دیس میں محبت کی باتوں کا امین ہو!
وہ جو دیس میں محبت کی باتوں کی ماں ہو!
وہ جو دیس میں محبت کی باتوں رسول ہو!
وہ جو محبت کی نئے سرے سے تشریع کرتا ہو!
وہ جو محبت اور دھرتی کے رشتے سے آشنا ہو!
وہ جوکارونجھر کی کور کو دیکھے تو وہ بھی محبت سے
اور لاڑ کی نمکین دھرتی سے جُڑ جائے تو وہ بھی محبت سے
وہ جو محبت لکھے
محبت سوچے
اور محبت کہے!
وہ جو مسیت کے سائے میں سستے سگریٹ پئیے
اور مندر کے گھنٹے محبت سے بجائے
وہ جو بھجن سنے اور قرآنی آیات کے نئے نئے مفہوم لائے
وہ جو گیت سنے اور لطیف کو پڑھ کر روئے
وہ جو سب کو کہے کہ اگر مذاہب سے محبت نکال دی جائے تو وحشت باقی بچتی ہے اور وحشت ہلاکت ہے
وہ جوقرآنی حوالوں سے انسانوں کی انسان سازی کرے
اور گیتا کے گیان سے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرے کہ
،،بن سازوں اور رنگوں کے زندگی اجائی ہے!،،
جسے سندھ دھرتی پہ جتنی محبت مسجد سے تھی اتنی ہی محبت مسندروں سے تھی
وہ جو خود گیان تھا گیان کا پاٹ تھا
وہ جو خود خطیب تھا اور خود ہی واعظ تھا
وہ مُلا نہ تھا،پنڈک نہ تھا پا دری نہ تھا
پر وہ اس نئے دور کا نیا عالم تھا
وہ اوشو جیسا نہ تھا پر اوشو بھی اس جیسا نہ تھا
اوشو کو تو کبھی دھرتی سے محبت نہیں رہی پر اسے بس محبت ہی دھرتی سے تھی
وہ اوشو کی ماند جلا وطن نہیں رہا پر اسے کبھی دھرتی پر سکون بھی میسر نہیں تھا
وہ کنفوشس جیسا تھا۔کتابیں لکھتا،بھوکا رہتا اور دھرتی سے محبت کرتا
پر اسے کنفوشس جیسے شاگرد نہیں ملے
کنفیوشس کی کتابیں پتھروں پر کندہ کی گئیں
کنفوشس کو فرماں بردار شاگرد تو ملے پر محبت بھرا دیس نہیں ملا
اور اسے شاگرد تو بلکل نہیں ملے پر محبت کرنا والا دیس ضرور ملا!
اس کی کتابیں اب بھی موجود ہیں پر ہلکے پیلے سفید کورے کاغذوں پر
اس کی کتابیں بھی ایسی ہی تھیں کہ وہ کتابیں بھی گلابی پتھروں پر کندہ کی جا تیں
اس نے کتابیں لکھیں ایسی کتابیں جیسی کتابیں مسیحا اپنے پیچھے چھوڑ جا تے ہیں
اس نے باتیں کی ایسی باتیں جیسی باتیں عیسیٰ کیا کرتا تھا
عیسیٰ ماں مریم کے ساتھ تھا اور اس دھرتی میں اس کی کوئی ماں مریم نہ تھی
ایک دھرتی تھی تو وہ بھی مصلوب
ایک سید تھا تو وہ بھی مصلوب!
اگر کتابیں نہ ہو تیں تو وہ خود کشی کر لیتا اور آج جب وہ نہیں تو اس کی لکھی کتابیں خود کشی کر رہی ہیں
اس نے اپنے پیچھے اتنے ہی لوگ چھوڑے جتنے لوگ ابنِ مریم چھوڑ گیا تھا
مسیح کچھ وقت کے لیے مصلوب رہا وہ زندگی کی سبھی بھاریں مصلوب رہا
مسیح کے سر پر کانٹوں کو تاج کچھ وقت کے لیے رہا
پر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج تو اب بھی موجود ہے کون کہتا ہے کہ اس کے سر سے کانٹوں بھرا تاج اُتار لیا گیا ہے؟
اس کے دوست کم اور دشمن زیا دہ تھے
پر پھر بھی وہ دشمنوں کے درمیاں محبت کی باتیں کیا کرتا تھا
وہ محبت کا رسول عبدالواحد آریسر تھا
سندھ نے اسے جنا اور اس نے کئی کتابیں سندھ کی محبت سُرخ پرچم والی معصوم بچوں جیسی سیا سی پارٹی اور اندرہ کو جنا
ویسے تو یہ منافقت اور مفادوں سے بھرا معاشرہ اس سے ہمیشہ نفرت ہی کرتا رہا پر خالق جونیجو نے اس سے نفرت میں آکر اپنی جیون کتھا،،پو ری زندگی ان پو ری جدو جہد،،میں بھی اس کے لیے نفرت ہی لکھی ہے جس میں وہ کافی حد تک ناکام رہا ہے وہ نفرت خود ہی تھوک بن کر خالق جونیجو کے منھ پر گرتی محسوس ہو رہی ہے
اب سننے میں یہ آ رہا ہے کہ ریا ست اس محبت کے رسول عبدالواحد آریسر کے چلے جانے کے بعد بھی اس سے خائف ہے اور وہ نقشے قدم جو محبت کے رسول نے اپنی پو ری زندگی میں سندھ کا سفر کر کے اپنے پیروں کے چھوڑے ہیں یہ ریا ست ان پیروں کے نقوش کو مٹانا چاہتی ہے!
محبت کے رسول کے پیروں کے نقوش مٹانا ایسا ہی ہوگا کہ جیسے
گلابی پہاڑ کارونجھر پر زنجیریں ڈال دی جا ئیں
موروں کے گیتوں پر بندش لگا دی جائے
کنفیوشس کی کتابوں کو جلا دیا جائے
ساون کو برسنے سے روکا جائے
بارش کے قطروں پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی جائے کہ اس سے دھرتی گیلی ہو تی ہے
سندھ دھرتی کو کاغذوں کا نقشہ سمجھ کر اسے لپیٹ دیا جائے
اور اس پرچم کو ہواؤں سے روکا جائے جو اب بھی محبت کے رسول کی قبر پر جھول رہا ہے
اب جب ان میں سب کچھ بھی ممکن نہیں تو یہ ریا ست اس صدا کو کیسے روک سکتی ہے
جو منزل کی صدا ہے
جس کا سفر ایسا ہی ہے جس کے لیے لطیف نے سسئی کی زبانی کہا تھا کہ
،،مون سا ھلے سا جا جی مٹھو نہ کرے!،،
محبت کے رسول عبد واحد آریسر نے سندھ کی بقا کے لیے اپنے جیون کا بھی دان دیا تھا
اب دیکھتے ہیں کہ سندھ محبت کے رسول کو کیا دان دیتی ہے
جس کی کتابیں بہت ہیں
پر اس کی اُمت کوئی نہیں
اگر یہ یروشلم کی گلیوں میں ہوتا تو نبی ہوتا
پر یہ سندھ پہ لطیف کی وائی بن کر گونج رہا ہے
اور سوکھا سندھو بن جل کے جھوم رہا ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں