7 اپریل بلوچ مزاحمت کا ایک روشن باب – نذر جان بلوچ

545

7 اپریل بلوچ مزاحمت کا ایک روشن باب

تحریر: نذر جان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے۔”

سردار خیربخش کے یہ الفاظ ہر گزرتے دن اور ہر لمحے میں روز روشن کی طرح عیاں ہوتے جارہے ہیں۔ گوادر کی نیلگوں سمندر سے لیکر دامان چلتن تک یا پھر شور پارود سے لیکر ہرنائی کی تلاروں تک دشمن کے سر پر لٹکتی خوف کی تلوار یہی مسلح جدوجہد رہی ہے۔

اس طویل اور صبر آزما جنگ نے جہاں دشمن کو ذہنی کرب میں مبتلا کر رکھا ہے وہی ہمارے سرزمین کے شہیدوں کی یاد بھی ہر بلوچ کے دل میں تر و تازہ ہے۔ اس راہ کے مسافروں نے اپنے لہو سے جو چراغ جلائے ہیں ان کی لو اب کسی موسمی ہوا سے بجھ نہ پائیگی۔ 7 اپریل کا دن بھی ایسے ہی جانثاروں کی امر ہونے کا دن ہے۔ جنہوں نے دشمن کے طیاروں، پیادہ فوج اور کمانڈوز کا ڈٹ کر مقابل کیا اور انہیں انکے عبرت ناک انجام سے بھی آگاہ کردیا۔ آخری گولی کے فلسفے نے بھی اسی دن ہی جنم لیا تھا۔ جب شہید پھلین امیرالملک نے نظریہ اور دوست کی حفاظت کیلئے سامنے کے جیب میں رکھی ہوئی گولی کو اپنے جسم میں اتارا۔ اس طویل جھڑپ میں دشمن فوج سینکڑوں ہلاکتوں اور ایک ہیلی کے گرنے کا شرم اٹھائے ناکام و نامراد لوٹے۔ لیکن شور و پارود کے پہاڑی سلسلے کا سر آج بھی ان تین شہیدوں کے نام سے فاخرانہ طور پر داد شجاعت دے رہا ہے۔ جنہیں پہاڑوں نے عزم و بلند حوصلگی کا درس دیا تھا انہوں نے اپنے پہاڑوں کو وفا کا عملی پیکر بن کر دکھایا۔ اب جب کھبی بھی میں قلات کے پہاڑوں کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پہاڑ دشمن کے سامنے سینہ تھان کر کھڑے ہیں جبکہ ان شہیدوں کو عاجزانہ طور پر سر جھکائے سلامی پیش کر رہے ہیں۔

شہدائے شور پارود کو محض ایک احساس کے ذریعے محسوس کیا جاسکتا ہے اسے پرکھا اور جانچا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اس پر تجزیے اور تبصرے ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جنگی حکمت عملیوں، دشمن کو منہ توڑ جواب دینے اور دیگر تیکنیکی پہلوؤں پر بات کی جاسکے مگر ان شہیدوں کے وفا کی وسعت کو ناپنے کا کوئی آلہ نہیں اور نہ ہی ان کی جرات و دلیری کو تولنے کا کوئی پیمانہ ہے۔ جن کیلئے تنگ گھاٹیوں نے سینہ کشادہ کیئے اور سخت پھتروں نے چکل بہا دیئے۔ انہوں نے اپنے پسینوں کی ایک ایک قطرے سے سرزمین کیلئے گوہر نایاب پیدا کیا۔ وقت کی تیز رفتاری ان کی یاد کو مدہم کرنے کی سکت نہیں رکھتی اور نہ ہی معلومات کا انبار شہدائے پارود کو ہماری یادداشتوں سے محو کرسکتا ہے۔ جن کی بہادری کی لوریاں تلار اور عزم کی داستانیں پہاڑوں کی بلند چوٹیاں سُنا رہے ہوں وہ ہرگز فراموش نہیں ہوسکتے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں