گریشگ کا تعلیمی نظام اور منشیات ۔ سراج نور

306

گریشگ کا تعلیمی نظام اور منشیات

تحریر: سراج نور

دی بلوچستان پوسٹ

ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ علم حاصل کریں، خود سیکھیں اور دوسروں کو سیکھائے تاکہ سماج ترقی کی طرف گامزن ہو، اگر میں آئین و قانون کی بات کروں تو پاکستان کی آئین کے آرٹیکل پچیس A کے تحت ان تمام بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے جن کی عمریں پانچ سے سولہ سال تک ہے ( یہی گورنمنٹ دسویں تک بچوں کو فری ایجوکیشن دے گی)، یہاں ذہن میں ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ بلوچستان اور آئین یہ ہو نہیں سکتا، اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو اس وقت بلوچستان کی حیثیت ایک کالونی کے سیوا اور کچھ نہیں اور کالونی میں آئین ہوتا ہی نہیں وہاں جو قبضہ گیر چاہے وہی قانون اور آئین ہے، اگر بلوچستان کالونی نہیں تو پھر ہزاروں کے حساب سے بلوچ نوجوان عقوبت خانوں میں کیوں اذیت سہ رہے ہیں؟ اور ان نوجوانوں کو کس قانون کے تحت عقوبت خانوں میں بند کردیا گیا ہے؟

گریشگ نہیں بلکہ پورا بلوچستان اس وقت تعلیمی بحران سے دوچار ہے، میں اس لئے گریشگ کو لے رہا ہوں کیونکہ میں نے وہاں کی تعلیمی نظام کو بہت قریب سے دیکھا ہے وہاں کے نوجوانوں کو کس طرح تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے اور سماجی براؤں میں کیسے اور کس طرح ملوث کیا جارہا ہے۔ شاید تمام قبضہ گیر قوتوں کی ایک ہی پالیسی رہی ہے کہ آبادکاروں کو کس طرح تعلیم سے دور رکھا جائے، ان اقوام کے نوجوانوں کو فحاشی اور منشیات جیسے سماجی برائیوں کی طرف کس طرح راغب کریں۔

گریشگ ضلع خصدار کا ایک سب تحصیل ہے، یہ تین یونین کونسلوں پر مشتمل ہے جس میں سریج، گونی اور کوڈاسک یہ تین یونین کونسلوں میں تقریباً 52 اسکول ہے۔ ان اسکولوں میں کچھ ایسے اسکول ہیں جن کا کوئی نام و نشان نہیں، کچھ ایسے اسکول ہیں جن کی عمارت ناکارہ ہوچکی ہے، جس میں نہ کھڑکی دروازہ کچھ بھی نہیں اور کچھ ایسے اسکول ہیں جن کی عمارت تو ہیں لیکن کھڑکی دروازہ کچھ بھی نہیں اگر کوئی ایسا اسکول ہو اس کی عمارت موجود ہیں لیکن اس میں اُستاد نہیں ہے، اگر اُستاد ہے تو اس میں کتابین، فرنیچر کچھ بھی سہولیات موجود نہیں، کھیلنے کھودنے کا سامان اپنی جگہ وہاں کتابین نہیں ہے۔

اگر ہم ان نا انصافیوں پر بات کریں تو ہمیں آئین یہ اجازت دیتا ہے لیکن آئین میں بھی کچھ شرائط ہے کہ آپ کچھ چیزوں پر بات نہیں کرسکتے ہیں جیسے سیکورٹی کے حوالے سے دوسرے ملکوں سے دوستانہ تعلقات کے بارے میں مثلاً آپ یہ نہیں کہ سکتے کہ سی پیک کے نام پر بلوچ قوم کا استحصال کیا جارہا ہے سی پیک روٹ کے خاطر ہمارے اسکولوں کو تباہ کیا جارہا ہے (سب تحصیل گریشہ گورنمنٹ بوائز اسکول حافظہ آباد کے چار دیواری کو گِرا کر وہاں سے سی پیک روٹ بنایا جارہا ہے لیکن اس کے باجود سب خاموش بیٹھ کر تماشائی بن گئے ہیں)، فرض کرلیں ہم نے آئین کی آرٹیکل انیس کو لے لیا جس میں فریڈم آف اسپیچ ہے۔

اگر ہم آرٹیکل 19 کو لیں ان چیزوں پر بات کریں کہ بلوچستان کی زیادہ بجٹ عسکری مفادات کیلئے استعمال ہورہی ہے اور حکومت بلوچستان میں جان بوجھ کر اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر قبضہ کررہا ہے تو ہمیں غدار، ملک دشمن کا لقب دیا جاتا ہے یا اغواء کرکے ہمیشہ کیلئے لاپتہ کردیئے جائیں گے اور ایک حق پر بات کرنے والا آواز ہمیشہ کیلئے زندان کی تاریکیوں میں قید ہوجائیگی۔

بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں سے لیکر پارلیمانی ممبران تک سارے اس جرم میں برابر کے شریک ہے وہ بھی اس قبضہ گیر سامراج کے ہم آواز ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو کس طرح تعلیمی اداروں سے دور کرکے ان کو سماجی برائیوں کی طرف راغب کریں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جس قوم کے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھا گیا وہاں منشیات جیسی لعنت کو پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا، آج کل گریشہ کے ساتھ ساتھ نال بلکہ پورا بلوچستان اسی آگ میں جل رہا ہے، چائے وہ مغربی بلوچستان ہو یا یہ میں اور تم سانسیں لے رہے ہیں۔
یہاں ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ بلوچستان میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی قسمت اس طرح بدل گئی کہ کچھ پتہ ہی نہیں چلا، تمام تعلیمی اداروں کی شکل تبدیل کرکے ایف سی، آرمی کی چوکی اور چھاؤنی میں بدل دی گئی۔ اب سوال یہی ہے کہ اتنے آرمی، ایف سی، ہزاروں کی تعداد میں لیویز کی چوکیوں کے بعد یہ منشیات یہاں کیسے پہنچ رہے ہیں؟ گریشہ میں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں منشیات فروش لیویز کی گرفتاری کے بعد ایک ہفتے میں واپس گھر پہنچ جاتے ہیں، کیا یہ پاکستان پینل کوڈ صرف پنجاب اور اسلام کیلئے بنا ہے؟ اگر بلوچستان ایک کالونی نہیں تو ان تمام منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی کی جائے جنہوں نے کئی ماؤں کی گود اُجاڑے ہیں، اگر ان منشیات فروشوں کے خلاف حکومت کوئی ایکشن نہیں لے گی تو ہمارے پاس ان منشیات فروشوں کے خلاف لڑنے کیلئے ایک ہی رستہ ہے وہ یہ کہ گھر گھر میں جا کر لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کریں، اپنے لوگوں کو علم کی روشنی سے شناسا کریں، اگر ہم منشیات فروشوں کے خلاف کوئی ریلی وغیرہ نکال نہیں سکتے لیکن ہمیں یہ آئین حق دیتا ہے کہ اپنی حقوق کیلئے لڑسکتے ہیں، اپنے اسکولوں کو فنکشنل کرنے کیلئے آواز اُٹھا سکتے ہیں، آو ایک ہو جاؤ اپنے بچوں کیلئے تاکہ وہ منشیات جیسے لعنت سے بچ سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں