ریکوڈک ڈیفینس کمپئین کے تحت ہفتے کے روز کوئٹہ پریس کلب میں ریکوڈک کے حالیہ خفیہ معاہدے کے پیش مظر سیمینار منعقد کیا گیا جس میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈپٹی آرگنائزر رشید کریم بلوچ،
سینئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار ، نیشنل پارٹی کے نائب صدر ڈاکٹر اسحاق بلوچ ، بلوچ یکجہتی کونسل کی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، بلوچستان بار کونسل کے راحب بلیدی ایڈووکیٹ ، پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ ، ہزارہ سیاسی کارکنان کے طاہر ہزارہ ، سینئر سیاسی رہنماءعنایت اللہ کاسی ایڈووکیٹ ، ڈاکٹر دین محمد بزدار ، نور اللہ وطن دوست نے خطاب کیا۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے سیاسی رہنماوں ، صحافتی و وکلاءنمائندوں ، ادیبوں اور دانشوروں نے ریکوڈک معاہدے کے مندرجات سامنے لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے پہلا احتساب ان کا ہونا چاہئے جنہوں نے اسمبلی کا ان کیمرا اجلاس بلا کر ایک ایسے معاہدے کی منظوری دی جس کی الف ب کا خود انہیں بھی نہیں پتہ ،اگر کسی کو بلوچستان کے وسائل سے قرضے اتارنے ہیں تو پہلے یہ حساب دیا جائے کہ ستر سال میں کس نے کتنے قرضے لئے کس پر یہ قرضے خرچ ہوئے ، شروع دن سے ریکوڈک کی بنیاد ہی غلط طریقے سے ڈالی گئی ، بلوچستان ہائیکورٹ ، سپریم کورٹ کے فیصلوں اور آئین کی خلاف ورزی کی گئی ، بلوچستان کے وسائل بلوچستان کے عوام پر خرچ ہونے چاہئیں جو لوگ فیصد بڑھانے کی بات کرتے ہیں وہ پہلے معاہدے کو منظر عام پر لائیں بلوچستان کے وسائل کا فیصلہ بلوچستان کے عوام نے کرنا ہے کسی تھونپی ہوئی قیادت کو یہ فیصلہ نہیں کردیں گے۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈپٹی آرگنائزر رشید کریم بلوچ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے ایک بات بہت کی جاتی ہے کہ یہاں کے لوگ ترقی مخالف ہیں ہم ترقی کے بالکل خلاف نہیں البتہ استحصال کے مخالف ہیں اور ترقی دینے اور استحصال کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے ریکوڈک بلوچستان کا ہے اور اس پر اولین حق بلوچستان کے عوام ہی کا ہے ریکوڈک کو اونے پونے داموں نیلا م کرنے میں نام نہاد بلوچ قوم پرست بھی برابر کے شریک ہیں بلوچ عوام کو یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وسائل اور اپنے مسائل کے لئے آواز اٹھانی چاہئے۔
سیمینار میں انسانی حقوق کمیشن کے رکن طاہر حسین ایڈووکیٹ ، بلوچستان شیعہ کانفرنس کے سابق صدر داﺅد آغا ، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے سابق جنرل سیکرٹری رشید بلوچ ، سینئر صحافی عارف بلوچ ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ماما قدیر بلوچ ، سینئر قانون دان نذیر آغا ایڈووکیٹ ، عوامی نیشنل پارٹی کے ملک امین اللہ کاکڑ ، ادیب و دانشور ڈاکٹر تاج رئیسانی ، گلزار دوست بلوچ، سنگت رفیق بلوچ ، وحید زہیر ، قومی یکجہتی جرگہ کے حضرت افغان ، پروفیسر حنیف بازئی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں ، سیاسی کارکنوں ، وکلاءاور سول سوسائٹی کے نمائندوں سمیت لوگوں کی کثیر تعداد نے بھی شرکت کی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل پر پہلا اور بنیادی حق بلوچستان کے عوام کا ہے لیکن بدقسمتی سے شروع دن سے بلوچستان کو اس کا جائزحق نہیں ملا ، نہ صرف ریکوڈک بلکہ سیندک اور سی پیک سمیت بلوچستان کے ساحل اور وسائل سے متعلق ہر معاہدے میں بلوچستان اور بلوچستان کے عوام کو نظر انداز کرکے فیصلے کئے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ریکوڈک سے متعلق حالیہ معاہدہ ہونے سے بہت پہلے عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ہم ریکوڈک سے ملک کے قرضے اتاریں گے-
انہوں نے کہا کہ اگر آپ ہمیں بھائی سمجھتے ہیں تو پھر بھائیوں میں حساب بھی لازمی ہے پہلے یہ حساب دیں کہ ستر سال میں کتنے قرضے لئے گئے ان قرضوں کو کہاں خرچ کیا گیا ان قرضوں سے بلوچستان کو کیا ملا آیا قرض لینے والے وزرائے اعظم یا آمرانہ ادوار میں برسراقتدار ڈکٹیٹر بلوچستان سے تھے ؟ ان سوالوں کے جواب دیں پھر بلوچستان کے وسائل سے قرض اتارنے کی بات کریں انہوں نے کہا کہ اس نظام نے ہمارے بچوں کو بھوک افلاس اور غربت سے دوچار کیا ہے اس نظام کو آئینہ دکھانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ہم بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کسی صورت قبول نہیں کریں گے ہم اس معاہدے کو مسترد کرتے ہیں پہلے اس معاہد ے کو منظرعام پر تو لایا جائے اور اس سے بھی پہلے ان کا احتساب کیا جائے جنہوں نے ان کیمرہ سیشن میں ریکوڈک معاہدے کو پڑھے بغیر اس کی منظوری دی ریکوڈک بلوچستان کے عوام کی امانت ہے ریکودک میں صرف سونا اور تانبہ ہی نہیں بلکہ 16 کے قریب دیگر نایاب معدنیات بھی ہیں ان سب کا ہمیں حساب چاہیے ، ہم جعلی پولیٹیکل پراسس کو روک کر اپنے مستقبل کا دفاع کریں گے ہم ریکوڈک کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں ، تمام قبائل سمیت تمام مکاتب فکر کو لے کر آگے بڑھیں گے انہوں نے کہا کہ اس سے بڑھ کر کیا المیہ ہوسکتا ہے کہ بلوچستان کو ترقی دلانے کے دعویدار بلوچستان کے عوام سے ان کی زمینیں ہتھیانے کے چکروں میں ہیں بلوچستان میں جتنی بلاپیمودہ زمینیں ہیں وہ قبائل کی ملکیت ہیں بلوچستان میں کوئی سرکاری زمین نہیں لیکن اب ان زمینوں پر قبائل کا حق تسلیم نہیں کیا جارہا۔
نیشنل پارٹی کے نائب صدر ڈاکٹر اسحاق بلوچ نے کہا کہ ریکوڈک بلوچستان کا اہم ترین معدنی ذخیرہ ہے لیکن پہلے دن سے اس کی بنیاد غلط ڈالی گئی پہلی اینٹ ہی غلط رکھی گئی ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے تمام نکات سامنے لائے جائیں۔ پی ایف یوجے کے صدر شہزادہ ذولفقار نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے کو لے کر اب تک بہت سی چیزیں سامنے آئی ہیں بہت سی چیزیں اب بھی پوشیدہ ہیں حالیہ معاہدے میں جو بھی ہے اسے پہلے سامنے لایا جائے کیونکہ بعض لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ خود وزیرعلیٰ کو بھی بہت سی چیزوں کا علم نہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے اور ریکوڈک معاہدے کے بہت سارے پہلو ہیں کچھ چیزیں بہت واضح ہیں کچھ باتیں واضح نہیں ، کہا جارہا ہے کہ یہ ٹریلین ڈالرز کا منصوبہ ہے لیکن اس ٹریلین ڈالرز کے منصوبے کے حوالے سے بلوچ کو اسٹیک ہولڈر ہی نہیں سمجھا گیا اعتماد کا پودا سوکھ چکا ہے عدم اعتماد کی صورتحال ہے شروع دن سے معاملات کو انتہائی غیر سنجیدگی سے لیا گیا ریکودک سمیت جتنے بھی معدنی وسائل ہیں ان سے بلوچ بچوں کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہم ترقی مخالف بالکل نہیں لیکن ترقی کے حوالے سے بلوچ قوم کا تجربہ بہت تلخ رہا ہے جب بھی ترقی کے دعوے ہوتے ہیں تو ہمارے مسائل بڑھ جاتے ہیں اب تو ہمیں ترقی سے بھی ڈر لگنے لگا ہے ، بلوچستان کے وسائل سے بلوچستان کو کچھ نہیں ملا ، سوئی گیس ، سیندک ، گوادر پورٹ کی طرح ریکودک سے بھی بلوچستان کو کچھ نہیں مل رہا جو لوگ یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ ہم نے بلوچستان کا شیئر بڑھادیا ہے اور حصہ پچیس فیصد کردیا ہے وہ پہلے یہ تو بتائیں کہ انہوں نے معاہدہ دیکھا بھی ہے یا نہیں۔
ہزارہ سیاسی کارکنان کے طاہر ہزارہ نے کہا کہ اگر عوام متحدہ ہوجائیں اور اپنے وسائل کے تحفظ میں سنجیدہ ہوجائیں تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اور اراکین اسمبلی کے پاس کوئی اختیار نہیں بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں سول سوسائٹی اور تمام قبائل کو مل کر اس حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل اپنانا چاہیئے –
بلوچستان بار کونسل کے مرکزی صدر راحب بلیدی نے کہا کہ ریکوڈک کے وسیع ذخیرے ، وہاں موجود معدنیات ، ان معدنیات کو نکالنے ، ان پر چیک اینڈ بیلنس کے نظام اور میکانزم سمیت بہت سی چیزیں ابھی تک واضح نہیں بلوچستان ہائیکورٹ میں 1993 کو معاہدہ ہونے کے بعد پہلی مرتبہ مولانا عبدالحق بلوچ نے چیلنج کیا تھا اس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملہ گیاعدالتی احکامات اور آئین کی خلاف ورزی افسوسناک ہے قومی وسائل پردسترس کے لئے صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بحثیت بار کونسل ریاست نے ہمیں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ ریکوڈیک کے حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں. اس خفیہ معاہدے کو نہ بلوچ قوم کے علم میں لایا گیا نہ بلوچستان کے عدالتوں کو علم میں لایا گیا لہذا ہم اس معاہدے کو نہیں مانتے کیونکہ ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ معاہدہ کس کے ساتھ ہوا ہے کون اسکا ذمہ دار ہے اور اسکے مستقبل میں کیا اثرات ہونگے.