وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم کردہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی کیمپ کو 4653 دن مکمل ہوگئے مستونگ سے سیاسی و سماجی کارکن محمد یوسف بلوچ، محمد یونس بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر ماما قدیر بلوچ سے اظہار یکجہتی کی-
کیمپ آئے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے ماما قدیر بلوچ نے کہا جب قوم پاکستان کے مکارانہ مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکراکر قدرے بہتر انداز میں پرامن جدوجہد کرنے لگے تو اس بار ترکی کی جانب سے دیئے گئے ڈرون حملے کے ذریعے بلوچ آبادیوں پر وحشیانہ بمباری اور بلا تفریق قتل عام سے اپنے قبضے کو خوش سیاسی جواز فراہم کرنے اور استحصالی منصوبوں کو جامع پہنانے کےلئے اس دوران قابض ریاست نے بلوچستان میں نام نہاد قوم پرستوں کا ایک طبقہ تخلیق کیا سیاست کو مراعات اور وزارتوں کے حصول کا ایک ریس بنا کہ نئی نسل کو شعور فکر نظریہ سے دور کرکے انہیں کو لہو کے بیل کی طرح مراعات جوتنے میں لگادیا-
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ پرامن جدوجہد میں نہ قابض کے مذاکرات کے پرفریب پیشکشوں سے دھوکے میں اگر جدوجہد سے دستبردار ہونگے اور نہ ہی مراعات کے گرداب میں پھنسنے پر راضی ہوگی دوسری طرف پرامن جدوجہد کو کچھلنے کے لئے ریاست نت نئے طریقوں کے ساتھ بلوچ پر وار ہوا ابتدائی دنوں میں بلوچ سیاسی کارکنوں اور ہم دردون کو اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے اغواکرکے انہیں تشدد کا نشانہ بناکر ڈرا دھمکا کر چھوڑ دیتا تھا لیکن جب قابض کو یہ احساس ہوا کہ بلوچ اب اس کے دھونس دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں تو وہ ایک نئے حربے مارو اور پھینکو پر عمل پیرا ہوکر بلوچوں کے دل میں ایک خوف پیداکرنے کی سعی کی-
ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ طلبہ سیاسی کارکنوں اور ہمدردوں کو اغوا کرکے وخشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر ان کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے طول عرض میں پھینکی گئی ان انسانیت سوز واقعات نے نہ تھمنے والے تسلسل کے بعد بھی بلوچ عوام کے قدم راہ فرزندوں کی بازیابی سے ناڈھگمگائے تو قابض ریاست اپنے مقامی گماشتوں کے ساتھ مل کر ڈیتھ اسکواڈ بنانے لگا اور بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ سمیت کئی دیگر گھناؤنی حرکات میں ملوث رہے یہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران پاکستان کے بربریت اور گھیراؤ جلاؤ پالیسی کی کچھ مثالیں ہیں-