کوئٹہ:بلوچ اب مزید کسی کے دھوکے میں نہیں آئیں گے – ماہ رنگ بلوچ

832

ہفتے کے روز بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کے پریس کلب میں ریکوڈک پر ہونے والے سیمینار سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے موضوع پر جب بھی بولنا ہوتا ہے تو دل کو چیر دینے والی درد، مسخ شدہ لاشیں اور مظالم کے پہاڑ سے گزر کر بولنا ہوتا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ بلوچستان پر بولنا آسان نہیں، جب تک آپ اس درد کو گہرائیوں تک محسوس نہیں کرتے آپ بلوچستان پر بول نہیں سکتے ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچستان میں ایک اصطلاح “ترقی” آپ کو ہر دور حکومت میں شدت کے ساتھ سننے کو ملتی ہے لیکن اہل بلوچستان اس اصطلاح کی تکلیف سے آشنا ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ہمارے بچے بھی اس ترقی کے نام پر ڈرتے ہیں۔ کیونکہ جب بھی ہمارے یہاں ترقی کا نام لیا جاتا ہے تو ہمارے بچے یتیم کیے جاتے ہیں، ہمارے چادر و چار دیواری کو پامال کیا جاتا ہے، ہمارے مائیں اور بہنوں کو روڈوں پر لایا جاتا ہے۔ اب ہمیں ترقی کے نام پر ڈر لگنے لگتا ہے۔ ترقی کے نام پر ہمارے قومی وسائل کو ہمارے منشا و مرضی کے بغیر کوڑیوں کے دام بیرونی سرمایہ داروں کو فروخت کیا گیا ہے ہمارے وسائل کو لوٹ کر ترقی کے نام پر بدلے میں ہمیں صرف اندھیری راتیں دی جارہی ہے۔ بقول نواب خیر بخش مری بلوچ کو ترقی کے نام پر  دستر خوان  کے بچے ہوئے ٹکڑے دیے جارہے ہے۔جو بحیثیت قوم ہماری قومی احساس کی توہین ہے اور وہ ہر دفعہ ہماری قومی احساس کی توہین کرتے آرہے ہیں۔ ریکوڈک، سیندک، گوادر اور سوئی کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر اپنے لیے یونیورسٹی، کالج اور انڈسٹریاں بنا لیے ہیں اور ہمیں بدلے میں ایک ایسا خون خوار روڈ دیا جو ایک سال میں بلوچوں کو دس ہزار لاشیں دیتی ہیں، یہ ترقی آپ رکھ لے ہم ایسے ترقی نہیں چاہتے جو ہمارے زندہ انسانوں کی لاشوں کو مسخ کردیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ریاست نے مال غنیمت سمجھ رکھا ہے، خود بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے اور بیرونی سرمایہ داروں کو بھی لوٹنے کے لیے دے دیتا ہے۔ لیکن ریاست آج تک بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے کی ایک کھوڑی کا حساب بھی نہیں دے سکتا ہے کہ سوئی، سیندک، ریکوڈک اور گوادر کے بدلے ریاست میں بلوچستان میں کتنے فعال تعلیمی ادارے بلوچوں کو دے چکی ہے؟ کیا بلوچ قوم کو اس بات کی آگاہی دی جاسکتی ہے کہ گذشتہ دس سالوں سے سیندک معائدے سے کتنے فیصد بلوچوں کو ملازمتیں دی گئی ؟ سیندک سے چاغی میں کتنے  اسکول قائم کئے گئے؟

انکا کہنا تھا کہ 2013 میں گوادر  بندرگاہ کا معاہدہ  کرکے اسے ترقی سے منسلک کیا گیا ۔جہاں وسائل کے مالک بلوچ قوم کو چند نوکریاں کی لالچ دی گئے، مگر آج گودار پورٹ کے ثمرات ہم سب کے سامنے جہاں گوادر کو ایک فوجی چھاونی کی حیثیت دی گئی ہے اور  گوادر کے مقامی افراد کو انکے زمینوں اور سمندر سے بے دخل کیا گیا ،وہ سمندر جو گوادر  کے عوام کے زریع معاش ہے اس سمندر سے ماہی گیروں کو بے دخل کیا گیا-

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ اس ملک کے دارالحکومت میں بلوچ طلباء اپنے سکالر ساتھی حفیظ بلوچ کی بازیابی کی جدوجہد کر رہے تھے ۔جہاں انھیں بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،انکے خلاف غداری کے مقدمے درج کئے گئے۔اور اس ملک کے وزیراعظم سمیت ریاست کا  ہر ستون بلوچ وسائل کے سودے کے بدلے اپنے قرضے ختم کرنے کا جشن منا رہا تھا۔یہ وہ تضاد ہے جو بلوچ اور وفاق کے رشتے کی حقیقت کو بیان کرتی ہے جہاں  وفاق  نے فقط بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار تک اہمیت دی اور وہاں  بلوچستان کے حقیقی وارثوں کے قتل غارت کرتے رہے-

انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس جہاں ریکوڈک معاہدے کو سامنے لایا گیا ، تمام اسمبلی ممبران کو معاہدے کے شرائظ سے نہ واقف رکھا گیا۔ مگر افسوس اس تاریخی نا انصافی پر  کسی عوامی معاہدے کی عملی مذمت سامنے نہ آسکی۔اور  ہمیشہ کی طرح کچھ اخباری بیانات دے کر بلوچ قوم کو دھوکے میں رکھا گیا ۔کچھ حضرات اپنے لاعلمی کو سبب 25٪ کو 50٪ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ریکوڈک معاہدے میں 50٪ مانگنے والے پہلے سوئی گیس، سی پیک سمیت بلوچ وسائل  کے  لوٹ مار کے معاہدوں میں بلوچستان کے حق کا مطالبہ کریں ۔وفاق کب اپنے کئے گئے معائدے پر قائم رہی ہے۔اور یہ پسماندگی کے نام پر سیاست نہ کی جائے بلوچ کے وسائل سے اس ملک کی معیشیت  چل رہی ہے توں کیوں ہم اپنے زمین کی اہمیت سے نہ واقف ہے۔ جن سیاسی پارٹیوں کے دور اقتدار  میں سی پیک کا معاہدہ ہوا۔وہ برملا اسکا اظہار کرتے ہے کہ سی پیک انکے پارٹی کی کرامات ہے ،مگر اج جب سی پیک کے ترقیاتی منصوبے کی حقیقت ہمارے سامنے آئی جہاں بلوچ قوم اپنے سمندر اپنے روزگار سے بے دخل کر نے پر سراپا احتجاج ہے تو سیاسی پارٹیاں بوکھلائٹ  کاشکار  ہے۔

‎ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ آج ریکوڈک پر بلوچستان کی سیاسی جماعتیں 25 فیصد اور 50 فیصد کا رونا رو رہے۔ جناب مسئلہ پچیس اور پچاس فیصد کا نہیں مسئلہ وفاق اور بلوچستان کے رشتے کا ہے۔ آج بلوچستان کے فیصلے میں بلوچوں کے اختیار زیرو فیصد ہے۔ آج بلوچستان کے مستقبل کے فیصلے اسلام آباد کے عالی شان محلوں میں کئے جاتے ہے۔ اور کتنی شرم کی بات ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں اپنے زمین اور قوم کے فیصلے خود کرنے کے بجائے اس میں فیصد مانگ رہے ہیں ہمارا مسئلہ فیصد نہیں ہمیں اپنی زندگی جینے کا حق دیا جائے ہمیں اپنے زمین اور قوم کے فیصلے خود کرنے دیے جائے۔

انہوں نے کہا کہ ‎آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ بلوچ آج جھاگ چکا ہے بلوچ نہ فیصد کی دھوکے میں آئے گا اور نہ ترقی کے نام پر استحصال قبول کرے گا۔