کراچی حملہ کے الزام میں ایم فل کا طالبعلم گرفتار

940

کراچی میں چینی شہریوں پر خودکش دھماکے کی تحقیقات جاری ہیں۔

ذرائع کےمطابق خودکش دھماکے میں ملوث سہولت کاری کے الزام میں تفتیش کاروں نے گذشتہ رات گلشن اقبال کے علاقے میں کارروائی کی جہاں سے ایم فل کے ایک طالب علم  کو حراست میں لیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حراست میں لیا گیا شخص جامعہ کراچی میں لیکچرز بھی دیتا تھا، ملزم کے زیر استعمال لیپ ٹاپ اور غیر ملکی لٹریچر بھی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔

دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تفتیش کاروں نے ایف آئی اے سائبر کرائم سے بھی رابطہ کیا جس کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ سے متعلق مواد بھی ملا ہے۔

تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ حملے میں ملوث افراد سوشل میڈیا سے رابطہ کرتے تھے۔

واضح رہے کہ جامعہ کراچی میں 26 اپریل کو فدائی حملے میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے تین چینی اساتذہ سمیت 4 افراد ہلاک و فورسز اہلکاروں سمیت چار افراد زخمی ہوئے تھے۔

حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے پہلی خاتون فدائی نے یہ حملہ کیا۔

واضح رہے گذشتہ دنوں لاہور، کراچی اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے طالب متعدد افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کیا گیا ہے جن میں طالب علم، صحافی و ان کے رشتہ دار شامل ہیں۔

جبکہ گذشتہ دنوں کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کی پارلیمانی سیکریٹری برائے اطلاعات  بشریٰ رند نے دعویٰ کیا کہ حملہ آور کے شوہر کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کرلیا ہے جبکہ دوران تفتیش اس نے اعتراف جرم و انکشافات کیے ہیں۔

تاہم بعدازاں بشریٰ رند کی پریس کانفرنس اس وقت جھوٹی ثابت ہوئی جب حملہ آور شاری بلوچ کی شوہر ڈاکٹر ہیبتان بشیر نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر ایک ٹوئٹ کیا۔