کالی صبح مبارک ہو
تحریر: ذوالفقار علی زلفی
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستان ایک نیم سرمایہ دارانہ اور نیم جاگیردارانہ معیشت ہے جو خطے میں عالمی سرمایہ داریت کی چوکیداری کے عوض ملنے والی عالمی امداد کی بیساکھی پر کھڑی ہے ـ سیاسی لحاظ سے پاکستان ایک نیم آمرانہ جمہوریت ہے جو عالمی سطح پر جدید نوآبادیاتی نظام کا حصہ ہے ـ اس قسم کی ریاست کے کھوکھلے ڈھانچے کو جس طرح عمران خان نے ایکسپوز کیا ہے میرے خیال سے آج تک کسی نے بھی نہیں کیا ـ عمران خان وہ بچہ ہے جس نے چلا کر کہہ دیا “بادشاہ ننگا ہے”
عمران خان نے ایک نیم سرمایہ دارانہ اور نیم جاگیردارانہ طرزِ معیشت میں عالمی سرمایہ داریت کے مقامی چوکیدار یعنی پاکستانی فوج کی ایماء پر عالمی نیو لبرل پالیسی کو نہایت ہی بے ڈھنگے طریقے سے پاکستانی عوام پر مسلط کیا ـ نتیجہ یہ نکلا معاشی لحاظ سے کمزور محنت کش طبقہ دھڑام سے زمین پر آگرا، دوسری جانب محنت کش طبقے کے اس بدترین استحصال کے حوالے سے نہ اپوزیشن کے پاس کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی عدالتی و فوجی اسٹبلشمنٹ کے پاس، مزے دار بات یہ ہے کہ کالے دھن کی حصہ داری پر صف آرا اسٹبلشمنٹ کے ایک دھڑے نے محض دوسرے دھڑے کو زچ کرنے کے لئے نہ صرف مصنوعی طور پر اسٹاک ایکسچینج کو گرایا بلکہ احمقانہ طریقے سے روپے کی قدر بھی گرائی پھر میڈیا پر اس کی تشہیر کرکے اسے آئین شکنی سے جوڑ دیا ـ
وہ عدالتیں جہاں انصاف کے حصول کے لئے غریب محنت کش تِل تِل مرتا ہے وہ اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لئے رات دس بجے کھل جاتی ہیں، اتوار کے دن سوموٹو لے لیتی ہیںـ وہ سیاسی جماعتیں جن کا نعرہ ہے “طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں” انہوں نے یہ پوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ ایک منتخب وزیراعظم اور کابینہ کی موجودگی میں نام نہاد مقدس پارلیمنٹ کے باہر قیدیوں کی گاڑیاں کس نے کھڑی کروائیں؟ وہ کون تھا جو اڈیالہ جیل میں خصوصی انتظامات کروانے کی خبریں چلا رہا تھا؟ آئین و قانون کے تحفظ کی قسمیں کھانے والے یہ ٹی وی اینکر کب کسی جبری گمشدگی پر اس قدر چیختے چنگھاڑتے نظر آئے؟
سعادت حسن منٹو کا “نیا قانون” یاد آتا ہے۔ اے میرے پیارے منگو کوچوان تری زندگی میں کچھ بھی نہیں بدلا، کل بھی خاکی وردی حاکم تھا سو آج بھی ہےـ عمران خان اپنی تمام تر نااہلیوں اور کم ظرفیوں کے باوجود اس نظام کو ننگا کرگیاـ
افسوس سردار اختر مینگل بھی اپنے بلوچی دستار کی عزت سے دستبردار نظر آئے ـ فوج کے ایک دھڑے کی خوشنودی کے لئے “باپ” کے فرماں بردار بیٹے بن گئے ـ فرمایا “آئین پاکستان ہی ہم سب کو جوڑتا ہے”ـ جب وہ ایسا کہہ رہے تھے اسی وقت، عین اسی وقت بلوچ “شہدائے مرگاپ” کی انتہائی مسخ شدہ لاشوں کا غم منا رہے تھےـ سردار یہ منافقت بھرا جملہ اس پارلیمنٹ میں کھڑے کہہ رہے تھے جس کے باہر ماورائے پاکستانی آئین قیدیوں کی گاڑیاں کھڑی تھی ـ سردار! کتنا گرو گے؟ جب یہ دھما چوکڑی جاری تھی ہماری قومی دولت، ہمارا ریکوڈک کوڑیوں کے دام بک گیاـ بیچنے والے “نیوٹرل” تھے ـ
نوآبادیاتی آئین پامال ہو یا بحال، سمی دین محمد بلوچ کے کس دکھ کا علاج؟ چلیں چھوڑیں بلوچ کو وہ تو غلام ہےـ کراچی سے خیبر تک کا فضول نعرہ بھی رہنے دیںـ صادق آباد تا اٹک کے جغرافیے میں رہنے والوں کو بھی رہنے دیںـ وسطی پنجاب کا باشندہ، وہاں کا محنت کش جو بہرحال پاکستان کا اصلی شہری ہے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حکمران کلب کا کوئی رکن کہہ سکتا ہے یہ پوری لڑائی اس کے مفاد کے تحفظ کے لئے لڑی گئی؟
کالے دھن کی حصہ داری پر لڑنے والے ان بھوکے بھیڑیوں کی آپسی لڑائی کا تماشا ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیںـ افتخار چوہدری تو کل کی بات ہےـ
فرمایا “نظریہ ضرورت دفن ہوا”ـ کہاں دفن ہوا؟ کب ہوا؟ ضرورت تھی اسی لئے پارلیمنٹ بحال ہواـ ضرورت تھی تبھی تو آئین کے سب سے بڑے محافظ کا ٹائٹل رکھنے والے جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت لگیـ نظریہ ضرورت مرا کب تھا جو دفن ہوا؟ کتنا جھوٹ بولو گے بھائی؟
بہرحال:
پاکستانیوں کو ایک اور کالی صبح مبارک ہو
چلتے چلتے: کل پنجگور سے ایک مسخ لاش برآمد ہوئی ہے، مسخ ہونے کی وجہ سے اس کی تاحال شناخت نہیں ہوسکیـ
والسلام
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں