پہاڑوں کے رکھوالے – مہلب اے ندیم

580

پہاڑوں کے رکھوالے

تحریر: مہلب اے ندیم

دی بلوچستان پوسٹ

سرد سی ہوا، کچی سی دھوپ، بادلوں کی خوشبو، باریک سا ایک راستہ، جس پر سے موٹرسائیکل پر سوار ایک بہت بڑا قافلہ، ان پہاڑیوں پر سے ہوتا ہوا، کبھی اوپر کبھی نیچے کبھی ان نوکیلے پہاڑوں کی نوک پر کبھی انکے بیچ سے نکلتا چھوٹا سا راستہ جس پر رواں دواں سرخ آنکھوں والا نِڈر کارواں ۔

ان راستوں پر ہر جگہ پتھر پڑے ہوئے، موٹرسائکل سے ٹکراتے ہوئے اس کا ہینڈل کبھی اِدھر موڑ دیتے کبھی اُدھر مگر وہ انسان کی کھال میں شیر اس کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے، تیز رفتاری سے چلتے ہوئے، اپنے منزل کی طرف بڑھتے جارہے تھے، جیسے ان پتھروں سے وہ صدیوں سے واقف ہو اور ان بے نشان راستوں پر انہیں خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہو، ہار کر گِر جانے کی بھی پرواہ نہیں، رات کا ڈر نہیں، اندھیرے کا ڈر نہیں اور نہ آسمان پر کالے بادلوں اور بے وقت ہونے والی بارش کا خوف، بھوک اور پیاس تو ان کے آس پاس نہیں بھٹکتا۔

وہ پہاڑ دور سے جتنے خوبصورت دیکھتے ہیں قریب سے اتنے ہی ڈراونے۔ میرے جیسا ڈرپوک تو ان راستوں پر پڑے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بھی ڈر جائے اور وہ قافلہ ان آسمانوں کو چھوتی ہوئی پہاڑوں پر چڑتا جا رہا تھا، چلتے چلتے شام ہونے لگی پر وہ کاروان رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ڈوبتا ہوا سورج ان پہاڑوں کی نوک پر سر رکھے ان عاشقوں کا نظارہ کرتا ہوا ان کو انکی اس پرجوش و جنونی عشق پر مبارک باد دے رہا تھا۔ اور وہ پرسکون مسکراہٹوں سے سورج کو دیکھتے ہوئے اسے ان پتریلی راستوں اور ان بُڑز پہاڑیوں پر انکے ساتھ رہنے کا شکریہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔

سورج آہستہ آہستہ شام کی چادر تلے اپنا چہرا ڈھانپنے لگا۔ رات نے اپنے کالے سایے آسمان پر پھیلانے شروع کیے۔ وہ اسی طرح بنا رکے چلتے جارہے ہیں اور میں ۔۔۔ میں تو ڈر کے مارے چپ چاپ ان جانثاروں میں سے کسی ایک کے پیچھے بیٹا، کچھ بول بھی نہیں پا رہا، میں اپنے اس فیصلے پر سوچنے لگا۔ کیا میں سہی جگہ پر ہوں؟ کیا میں ان جیسا بن سکتا ہوں؟ انکو تو کسی چیز کا ڈر نہیں، یہ پانی سے زیادہ دشمن کو اپنے سامنے دیکھنا پسند کرتے ہیں، یہ وہ ہیں جنہیں موت نامی شے نہیں ڈراتی، کیا میں اس لائق ہوں کہ میں اس قافلے میں شامل ہو سکوں؟ اگر نہیں ہوں تو کیا مجھ میں اتنی طاقت اور قابلیت ہے کہ میں اپنے فیصلے پر پورا اتر سکوں؟

میں پورے راستے انہی سوچوں میں گم تھا! دور ایک پہاڑی پر وہ قافلہ رکا۔ سب ایک ایک کرکے موٹرسائیکلوں سے اترنے لگے۔ میں اپنے سوچوں میں گم وہی موٹرسائیکل پر بیٹا تھا کہ میرے عمر کے ایک ساتھی نے شرارت بھری مسکان آنکھوں میں لیے مجھے چِڑایا “او بھائی اٹھو صبح ہو گئی“ اس کے پیچھے سب ہنسنے لگے، قہقہوں کی گونج پہاڑوں سے ٹکراتی ایک سے دو ہونے لگی اور میں چپ چاپ انہیں ہنستا دیکھ رہا تھا۔ مجھے اس طرح خاموش دیکھ کر ان میں سے ایک نے پوچھا “تم اس طرح خاموش کیوں ہو؟ ڈر رہے ہو؟ میں جانتا ہوں تمہیں اونچے پہاڑوں سے ڈر لگتا ہے اور اندھیرے سے بھی ۔” میں حیران رہ گیا نظریں اٹھا کر اسے دیکھا “میں ۔۔؟ نہیں تو“ میں نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی کہ میں اپنے آپ کو چھپاؤں اپنا ڈر اپنی کمزوریاں سب بھلا کر ان جیسا بن جاؤں۔ وہ پھر بول پڑا “تمہاری طرح مجھے بھی ڈر لگتا تھا“ اس کے ساتھ سارے مل کر ہنسنے لگے میں ویسے ہی خاموش کھڑا رہا کچھ بولے بغیر۔ پھر ایک اور نرم گفتار بول اُٹھا “تم یہاں کیا سوچ کے آئے تھے اور کیوں؟ میں نے ایک بار پھر آنکھیں اُٹھائیں اس کو دیکھتے ہوئے کہا  ”جی میں؟ “وہ سنجیدگی سے کہنے لگا “جی ہان تم۔ میری ایک بات دھیان سے سنو تم یہاں اس لئے ہو کیوں کے تم بہادر ہو، کیوں کہ تم میں ڈر سے آنکھ ملانے کی طاقت ہے۔ یہ پہاڑ ہمارے اپنے ہیں ہمارے رکھوالے اور ہم انکے یہ رات کا بکھرا ہوا اندھیرا، ہمارا حوصلہ ہے، اُمید ہے، آنے والی روشنی کی کِرنوں کا، تم فکر نہ کرو میں جلد تمہاری دوستی کرادونگا اپنے ان محبوب پہاڑوں سے۔”

اس رات کے بعد ان لفظوں کے بعد مجھے اندھیری راتوں کچی اور پتھریلی سڑکوں، نوکیلے بُرز پہاڑوں سے خوف نہیں آیا، وہ پہاڑ جو میرے پاسپان ہیں میں ان  کا رکھوالا ہوں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں