بلوچ وومن فورم کے ترجمان نے اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سنگین انسانی بحران کا شکار ہے جہاں رمضان کے مقدس مہینے میں بھی ظلم اور جبر جاری ہے۔ نوکنڈی میں پرامن مظاہرین پر فائرنگ اور ڈرائیوروں کی گاڑیوں کو ناکارہ کرنے کے سبب تین ڈرائیور ریگستان میں پیاس اور بھوک سے شہید ہوچکے ہیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ حیات بلوچ، تاج بی بی، ہوشاپ واقعہ اور اب نوکنڈی کا واقعہ انہی مظالم کی ایک کھڑی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں ہونے والے اس انسانی ظلم کے خلاف انسانی حقوق کے اداروں، حکومت اور عدلیہ کی خاموشی سے اس طرح کے مظالم میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے ۔
ترجمان نے کہا کہ سرحد بلوچستان کے لوگوں کی معاشی ذریعہ ہے ہزاروں لوگ تیل و دیگر کاروبار سے وابسطہ ہیں جو اپنی محنت مزدوری کرکے زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے اس معاشی زریعے کو لوگوں کے لیے موثر اور مفید مند ثابت کرے مگر بدقسمتی سے حکومت اپنی عوام کے لیے روزگار تو دور کی بات اپنے شہریوں کی جان کی بھی تحفظ نہیں کر پارہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں ہزاروں نوجوان کا روزگار بلوچستان، ایران اور افغانستان کے بارڈر سے وابستہ ہے، حکومت اور سیاسی پارٹیاں اُن کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے اقتدار کے رسہ کشی میں مصروف ہے، خود کو ریکوڈک کے وارث ثابت کرنے والے ریکوڈک کے حقیقی وارثوں کے قتل میں ریاست کے ساتھ شریک مجرم ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا 17 اپریل بروز اتوار بلوچ یکجہتی کمیٹی شال کی جانب سے کی جانے والے مظاہرے کی حمایت کرتے ہیں اور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نوکنڈی واقعے کے خلاف ایک توانا آواز بنیں تاکہ مستقبل میں عوامی طاقت سے ایسے واقعات کو روکھا جاسکے ۔
دریں اثناء بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ نسل کُشی پر عمل پیرا قوتیں آئے روز اس عمل میں تیزی لارہے ہیں، بیان میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ دنوں نوکنڈی واقعہ اس سلسلے کی کڑی ہے جہاں انسانی حقوق کو روندھ کر فورسز نے جس طرح بلوچ ڈرائیورز و مزدوروں کے ساتھ انسانیت سوز مظالم کیے وہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ فورسز نے گذشتہ روز بلاوجہ بلوچ شہری حمد اللہ پر فائرنگ کر کے انہیں شہید کیا اس کے بعد جب بلوچ عوام نے اس عمل پر احتجاج کی تو فورسز کی جانب سے احتجاجی مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں اب تک کم از کم 8 مظاہرین زخمی اور ایک شہید ہوئے ہیں جبکہ اسکے بعد صحرائی علاقے میں 200 بلوچ ڈرائیورز اور مزدوروں کی گاڑیوں کو ناکارہ بنا کر انہیں صحرا میں بے یار و مددگار چھوڑنا انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے، جس کے نتیجے میں کم از کم تین بلوچ شدید بھوک و پیاس کی وجہ سے شہید ہوچکے ہیں۔ جو کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
Three poor drivers died due to thirst after they were forced to walk in the desert by Pakistani border forces. Protests have erupted after the incident. pic.twitter.com/3rgjjsTbsb
— The Balochistan Post – English (@TBPEnglish) April 16, 2022
ترجمان نے کہا ہے کہ سیاسی مزاحمت کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی بروزِ اتوار 17 اپریل 11 بجے رئیس گوٹھ (بمقابل جامعہ فاروقیہ فیز۲) حب چوکی-کراچی مین شاہراہ پر احتجاجی مظاہرے کا اعلان کرتی ہے اور اس کے ساتھ حب چوکی سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں اور کراچی کی بلوچ آبادی سے اپیل کرتی ہے بلوچ پر ہورہے ظلم و بربریت کے خلاف آواز اُٹھا کر اس سیاسی مزاحمت کا حصہ بنیں۔ اسکے ساتھ بلوچستان و کراچی سے تعلق رکھنے والے تاجر و ٹرانسپورٹ برادری، محنت کش، صحافی، وکلاء، انسانی حقوق کے محافظ، طلباء اور ترقی پسند سوچ رکھنے والے لوگوں سمیت زندگی تمام طبقہ ہائے فکر سے شرکت کی اپیل کرتے ہیں۔