منگل کے روز بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں حق دو تحریک کی جانب سے نوکنڈی میں بلوچ ڈرائیوروں کے قتل اور ضلع کیچ میں انتظامیہ کی یقین دہانی کے باوجود سرحدی کاروبار کی بندش کے خلاف احتجاج کیا گیا –
اس سلسلے میں جوسک کراس سے گاڑیوں اور موٹرسائیکل سوار لوگوں کی بڑی تعداد نے ریلی نکالی نکالی گئی، ریلی کے شرکاء فدا شہید چوک سے پریس کلب روڈ تک ہوتے ہوئے کمشنر مکران کے آفس کے سامنے پہنچے جہاں احتجاج کیا گیا-
اس موقع پر شرکاء نے نوکنڈی میں ماورائے آئین و قانون ڈرائیورز کی قتل کے خلاف نعروں پرمشتمل پلے کارڈز اٹھا کر بلوچ قتل عالم کے خلاف نعرہ بازی کی-
احتجاجی مظاہرے سے حق دو تحریک کیچ کے آرگنائزر صادق فتح نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج ہم نوکنڈی و چاغی واقعات کے خلاف سڑکوں پرنکلے ہیں، لیکن یہ بلوچستان میں پہلے اور آخری واقعات نہیں ہیں، میرے خیال میں سال کے جتنے دن ہیں ان میں ہرایک دن بلوچ کا خون نہر کی طرح بہایا جاتا ہے-
انہوں نے کہاکہ ہم حکمرانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ کب تک اس ظلم کو بلوچوں مسلط کرتے رہیں گے۔ ہم ظلم کے خلاف نکلے ہیں اورنکلتے رہیں گے۔
یعقوب جوسکی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈی سی کیچ اپنے وعدے کاپاس کرتے ہوئے احتجاجی دھرنا گاہ آئیں اور ہم سے مزاکرات کریں بارڈر بندش کسی صورت قبول نہیں، جس کی وجہ سے ڈی سی کیچ تنخواہ اٹھاتے اور گھر بار چلارہے ہیں، خفیہ اداروں اور سیکورٹی فورسز کا کام عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے یا محض پروپیگنڈہ کے لئے کہ بلوچ دہشت گرد ہیں-
احتجاجی دھرنا سے جماعت اسلامی کے رہنماء غلام یاسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کی جانب سے چاغی واقعات کے خلاف بلدیاتی الیکشن میں اپنے امیدواروں کی دست برداری و الیکشن بائیکاٹ کا اعلان کیا اور کہا کہ قوم پرست مشترکہ طور پر بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کریں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نہیں بلکہ دنیاکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلح افواج کی کیمپوں میں گھس کر ان پر قبضہ کرکے تین چاردن تک لڑائی لڑی گئی کہا گیا کہ نائٹ وژن کسی نے دئیے اور سنائیپر کسی نے دئیے لیکن ہم سمجھتے ہیں کسی نے کچھ بھی نہیں فراہم کیا بلکہ جب نوکنڈی جیسے واقعات رونماہوں گے تو نوشکی اور پنجگور کیمپوں پر حملے جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
جماعت اسلامی و حق دو کے رہنما صبغت اللہ شاہ جی نے کہا کہ بلوچوں کے جلسوں پر میں چشم دیدگواہ ہوں نعرہ تکبیر لگا کر گولیاں چلائی گئیں اور لاشیں گرائی گئیں اور لوگ زخمی کیے گئے۔
انہوں نے کہاکہ نوکنڈی جیسے واقعات کے ردعمل میں پنجگورونوشکی جیسے واقعات ضرور ہوں یہ قومی غیرت کا مسئلہ کہ وہ اس کا جواب شدت سے دیں، نوکنڈی میں بلوچ بچہ گولی لگنے کے بعدخون میں لہولہان اور مسکرا رہا ہے اور ہم سے کشمیر و فلسطین کے مسئلے کانام لیا جاتا ہے کہ وہاں پر کیا ہورہا ہے جب کہ یہاں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ہندوستان یہ ظلم کشمیریوں پر نہیں کرتا۔
مظاہرہ سے بی ایس او کے سابق چیئرمین ظریف رند نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا احتجاج محض ایک واقعہ کے خلاف نہیں بلکہ بلوچ نسل کشی پر بنائی گئی پالیسی کے خلاف ہے جب تک یہ پالیسی نہیں تبدیل کی جاتی بلوچ اسی طرح گولیوں کا نشانہ بنیں گے یا انہیں بھوک اور پیاس سے شھید کیا جاتا رہے گا۔
احتجاجی دھرناسے ٹھیکیدار اختر بلیدی، جمال بلوچ، غلام اعظم دشتی ودیگر نے خطاب کیا جبکہ دھرنا میں ایک مرتبہ اے ڈی سی تابش بلوچ و اے سی تربت عقیل کریم سے مزاکرات اور انہیں ڈی سی کیچ کو دھرنا گاہ میں آکر مزاکرات کے لئے مطالبہ کیا گیا۔ بعدازاں ڈی سی کیچ حسین جان بلوچ سے کامیاب مزاکرات کئے گئے جس جالگی بارڈر مکمل کھولنے، دشتک زامران بارڈر کھولنے اور دیگر پوائنٹ پر بہت جلد پیش رفت کی یقین دہانی کے بعد احتجاج ختم کردیا-