بلوچ قوم پرست آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے نوکنڈی اور چاغی واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بلوچستان میں جاری نسل کشی اور اجتماعی سزا کا تسلسل ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے اور آخری بھی نہیں ہوگا۔ پاکستانی قبضہ کے چہتر سالوں سے بلوچ قوم کا قتل عام جاری ہے اور بلوچستان کو ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہاں نازی طرز کی کنسنٹریشن کیمپس قائم ہیں۔ پاکستانی سفاکیت کے لیے اجتماعی سزا اور نسل کشی کا لفظ بہت چھوٹا محسوس ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم نے اپنا فیصلہ کیا ہے کہ ہماری لاتعداد شہادتوں اور قربانیوں کا بدلہ صرف آزادی ہے۔ نام نہاد ترقی، میگا پروجیکٹس، فوجی انخلا یا مزاکرات پارلیمانی جماعتوں کی منشور ہیں کیونکہ بلوچ قومی بقا و شناخت کا تحفظ بلوچستان کی آزادی کے بغیر ممکن نہیں۔ بلوچ اقوام متحدہ اور کسی تیسری قوت کی موجودگی میں آزاد بلوچستان کی نقطہ پر پاکستان کے ساتھ گفت و شنید کرسکتی ہے۔ آزاد بلوچستان ہی ان قربانیوں کا حاصل اور مقصد ہے۔ ہم اپنی صبر آزما جدوجہد میں مسلسل محنت اور قربانی سے فاشسٹ ریاست سے ہر بلوچ فرزند کے خون کا حساب لیں گے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ عالمی انسانی حقوق کے پاسدار، اقوام متحدہ اور عالمی قوتوں کو اپنا اخلاقی کرادا ادا کرنا چاہیئے کیونکہ بلوچ قوم عالمی قوانین کے مطابق بحیثیت قوم اپنی جنگ لڑ رہا ہے۔ آج یہ ایک منظم تحریک کی شکل میں موجود ہے۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے بلوچستان میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ بلوچستان کی ہر انچ زمین پر ہمارا بہتا لہو اس کی گواہی دے رہا ہے۔
انہوں نے بلوچ نوجوانوں اور بلوچ قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا دشمن ایک غیر فطری ریاست ہے اور اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔ اس کی معیشت زوال پذیر اور بلوچستان میں ریاستی ڈھانچے محض فوج کی شکل میں باقی ہیں جبکہ آزادی کی تحریک میں روز نئی توانائی داخل ہو رہا ہے۔ ہم حق پر اور ریاست باطل ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم سرخ رو ہوں گے لیکن اس مقصد کے لیے ہمیں نئی عزم اور حوصلے کے ساتھ دشمن کے مقابلہ کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا دہشت گرد ریاست کی اس جبر میں تیزی، نوکنڈی اور چاغی جیسے واقعات پاکستانی فوج کی نفسیاتی شکست کا نتیجہ ہے، جو بلوچ سرمچاروں کے ساتھ نہیں مقابلہ کرسکتی۔ وہ نہتے بلوچوں کو درندگی کا شکار بنا رہی ہے۔