نظریہ ۔ اسلم آزاد

798

نظریہ

تحریر: اسلم آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

لفظ نظریہ(ideology) کا سب سے پہلا استعمال، فرانسیسی فلسفی ڈسٹوٹ ٹروسی (Destutt de Tracy 1834-1754) نے 1803ء میں کیا تھا۔ ٹروسی کا کہنا تھا نظریہ سوچ اور عقائد کا مجوعہ ہے جو انسان کو ایک بصیرت(worldview) فراہم کرتا ہے۔ کسی خاص نقطہ پر مجموعی، سائنسی اور منطقی خیالات، تخیلات اور تصورات کو نظریہ کہتے ہیں۔

نظریہ کی بنیادی ضرورت کسی عظیم مقصد کا حاصل اور اسکا طریقہ کار سے ہوتا ہے۔ نظریہ انسان، معاشرہ اور قوم کو ایک ساکھ (structure) اور وسیع پہچان دیتا ہے، اسکی ترقی اور خوشحالی دائرہ کار اس کی راہیں متعین کرتا ہے۔

نظریہ کے دو مرکزی شاخیں سیاسی اور معاشی ہیں، ان کے علاوہ نظریہ کے اور بھی بہت سے اقسام ہوتے ہیں جیسے کہ سماجی، معاشرتی، مذہبی، تقافتی اور فلسفی ہوسکتے ہیں۔ نظریہ انسان، معاشرہ اور قوموں کو ایک صحیح سمت دینے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے حالات اور واقعات میں بہتریں طریقے سے رہنمائی کرتا ہے۔

فرد، قوم یا معاشرہ عروج و زوال اس کے قوم کے سیاسی و معاشی نظریہ پر انحصار کرتے ہیں۔ منظم نظریہ ایک متحد قوم جنم دیتا ہے، متحد قوم ایک مستحکم معاشرہ پیدا کرسکتا ہے۔

فرد، قوم یا معاشرے کا مضبوطی یا کمزوری اسکی نظریاتی پختگی(ideological commitment) سے منسلک ہے۔ انسان قوم یا معاشرے بذات خود چھوٹا یا بڑا ہے، اس کا دار و مدار برائے راست نظریہ پر ہے۔ فرد، قوم یا معاشرے کا صحیح اور غلط کا فیصلہ اسکی نظریاتی تربیت (ideological development) سے جڑی ہوئی ہے۔

نظریہ انسان، معاشرہ اور قوم کا ہدف اور مقصد کلیئر کرتا ہے۔ خوشحال و مطمئن زندگی گذارنے کے لیے نظریہ ضروری ہے، بغیر نظریہ انسان گمراہ، بے مقصدیت کا شکار ہوتا ہے۔ نظریہ کے بغیر نہ کہ فرد، معاشرے نہ ہی قومیں زندہ ہوسکتے ہیں، نہ ہی ترقی و تمدن حاصل کرسکتے ہیں۔

ہمارے ہاں نظریہِ ضرورت کا مقصد وہ سیاسی نظریہِ ضرورت نہیں ہے جس کا مطلب ایک مقصد کی حصول کے لیے موجودہ وقت میں جو بھی اقدام اٹھانے کی ضرورت پڑے تو نظریہِ ضرورت (Doctrine of necessity)تحت اٹھاتا ہیں۔ ہمارا یہاں نظریہِ ضرورت سے مراد وہ فکر و فلسفہ جو کہ فرد، قوم اور معاشرے کے بنیادی ضروریات پورا کرتا ہے۔

فطری طور پر فرد، قوم یا معاشرے کی دو بنیادی ضروریات ہوتے ہیں۔ مادی(Material) اور غیر مادی (ideology) ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں جتنا بھی تحقیق، تخلیق یا ایجادات ہوئے ہیں ان سب کا بنیادی مقصد فرد، قوم یا معاشرے کی مادی اور غیر مادی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا آسان ہوگا کہ مادی اور غیر مادی ایجادات کا بنیادی مقصد فرد، قوم یا معاشرے کے مشکلات کو کم کرنا اور اس کو آسان زندگی گذارنے میں مدد کرنا تھا۔

مادی ضرورت:
مادی ضرورت سے مراد، کھانا، پینا، سونا، بیوی، بچے، ملازمت، گھر، گاڈی ہے۔ مادی ضرورت انسان کی زندگی گذارنے کے لیے اشد ضروری ہیں۔ جن کے بغیر انسان زندہ رہ نہیں سکتا ہے۔ اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو انسان نے اپنی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زمینی حقائق اور قدرتی قانون کو مدنظر رکھ کر مختلف ادوار میں مختلف اقسام کی شے ایجاد کئے ہیں۔ مثال کے طور پر روٹی، کپڑا، مکان، ٹیلیفون، جنگی جہاز، ٹیکنالوجی وغیرہ وغیرہ۔۔۔

غیر مادی ضرورت:
غیر مادی ضرورت کا کوئی جسمانی ساخت نہیں ہوسکتا ہے اس لیے اس کو غیرمادی کہتے ہیں۔ ہمارا یہاں غیر مادی ضرورت سے مراد، ہر وہ سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی سائنسی یا تقافتی نظریہ جو انسان کی نفسیاتی ضرورت پورا کرتا ہے، انسانی زندگی کو ایک جامع معنیٰ اور مقصد فراہم کرتا ہے۔ یہ نظریہ انسانی فطری ضروت ہوتا ہے۔

فرد، قوم یا معاشرے کے اسٹکچرل ضروریات پورا ہونے کے بعد فرد یا قوم کو ایک واضح نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کو ایک شعوری سمت دے سکیں، اور اپنی وجود کو ثابت(justify) کرسکیں کہ وہ اس جہاں میں کیوں زندہ ہے؟ اس کا زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس نظریاتی خلا (Gap) کو بھرنے کے لیے فرد یا قوم کو ایک منظم نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

فرد، معاشرہ یا قوم کو خوشحال زندگی گزارنے کے لیے ایک منظم نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

نظریہ بنیادی طور پر ایک سیاسی اصطلاح ہے جو نظر سے اخذ کیا گیا ہے جسکا مطلب دیکھنا۔۔۔ وہ نظر جو انسان، سماج، قوم کو اس دنیا کو دیکھنے، سمجھنے اور تشریح کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس جامع سوچ کو زبان عام میں نظریہ کہتے ہیں۔ نظریہ ایک مسئلہ اور اسکے حل کرنے کا بحث کرتا ہے۔

فرد، معاشرہ یا قوم بیٹھ کر یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ انکو کیسے نظریہ پسند اور کس طرح عمل عمل کرنا ہے بلکہ یہ فیصلہ سماج اور قوم کے بنیادی ضروریات اسکا نظریہ خود تخلیق کرتے ہیں۔ وہ نظریہ ہی نظریہ نہیں ہے جو فرد، قوم یا معاشرہ کے سیاسی، سماجی، معاشی و نفسیاتی ضروریات کو پورا نہیں کرتا ہے۔

فرد، قوم یا معاشرے کو اپنے اندرونی اور بیرونی دنیا کو ایک لغوی معنی دینا یا تشریح کرنے کے لیے فرد، قوم یا معاشرے کو ایک منظم نظریہ کی ضرورت ہے۔ بغیر نظریہ کے فرد، قوم یا معاشرہ ایک لمحہ بھی زندہ رہ نہیں سکتا ہے، چاہے اسکی بنیادی تمام ضرورت پورا کیوں نہ ہوں۔ اسلیے ہر فرد، قوم یا معاشرے کو زندہ رہنے کے لیے ایک نہ ایک نظریہ کی سہارا لینے کی ضرورت پڑ جاتا ہے۔ تاکہ وہ فرد، قوم یا معاشرے زندگی کے ہر خوشی اور غم سے گھبرانے کے بجائے صبر و تحمل سے کام لیں۔

فرد، قوم یا معاشرے کا مضبوطی اور کمزوری کا براہ راست ان کا نظریہ پر انحصار ہے۔ فرد یا قوم نظریاتی حوالے سے کمزور اور نڈھال ہو، تو وہ جلدی اعصابی طور پر شکست کردہ ہوتا ہے۔ فرد، قوم یا معاشرے کو کہاں، کسے اور کیا کرنا چاہیے۔ یہ سب فیصلہ فرد، قوم یا معاشرےاپنے زاتی جذبات اور خواہشات پر نہیں کرتے ہیں، بلکہ ان کی نظریہ ان فیصلے اور اعمال کا تعین کرتا ہے کہ اس فرد، قوم یا معاشرے کو کیا کرنا چاہیے۔ چاہے وہ فرد، قوم یا معاشرہ ہو نظریاتی حوالے سے کمزور ہو، تو وہ اپنی زندگی کی حالات اور واقعات کو صحیح سمت نہیں دے سکتا ہے جسکی وجہ سے وہ بہت جلدی اپنے فردی، قومی، سماجی اسٹکچر پر کنڑول کھوتا دیتا ہے، جسکی وج سے فرد، قوم یا معاشرہ میں مایوسی اور ناامیدی پیدا ہوتا ہے۔

فرد، قوم یا معاشرے نظریاتی حوالہ سے محکم اور مضبوط ہے نہ صرف وہ زندگی کے ہر مشکل حالات سے بہادری کے ساتھ مقابلہ کرسکتا ہے بلکہ وہ ایک پُرامن اور خوشحال زندگی بھی گزار سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں