میہڑ کا جل جانا زرداری کے خلاف پہلی ایف آئی آر ہے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ایک دو دن نہیں پر پیپلز پارٹی کی سرکار سندھ میں گذشتہ چودہ سالوں سے ہیں
یہ کوئی آشرواد کا ٹیکہ نہیں یہ ایک بُرائی کا ٹیکہ ہے جو سندھ کے ماتھے پر گذشتہ چودہ سالوں سے لگا ہوا ہے
ایک دو سالوں سے نہیں پر چودا سالوں سے سندھ میں معصوم بچے کتوں کے کاٹنے سے ہلاک ہو رہے ہیں اور مائیں اپنے معصوم مرتے بچوں کو اپنی جھولیوں میں ڈالے معلوم نہیں کس مسیحا کی منتظر ہیں
ایک دو سالوں سے نہیں پر چودا سالوں سے تھر کے معصوم بچوں کا دودھ اور دوا سرکاری کامورے کھا جاتے ہیں اور تھری مائیں ان معصوم بچوں کو رات کے پچھلے پہروں میں اپنے سینے سے لگائے مٹھی کا سفر اس اُمید سے کرتی ہیں کہ مٹھی پہنچ کر وہ بچہ اپنی آنکھیں کھولے گا اور ماں مسکرائے گا
تھری مائیں مٹھی پہنچ جاتی ہیں پر نہ تو بچہ آنکھیں کھولتا ہے اور نہ مائیں مسکراتی ہیں
اور تھر کی ریتیلی ریت پر ننھی قبریں بن جاتی ہیں جس سے سندھ اور تھری مائیں اپنا ہوش گنوانے لگتی ہیں!
ایک دو سالوں سے نہیں پر چودا سالوں سے سندھ کے اسپتالوں میں نہ تو قتل کیے افرادوں کا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے اور نہ زندہ لوگوں کو دوا مل رہی ہے اور مائیں مارے گئے انسانوں کی اسپتالوں کے دروں پر منتظر ہیں
ایک دو سالوں سے نہیں پر چودا سالوں سے سندھ میں ہاف فرائی اور فل فرائی کا گھن ہونا کھیل جا ری ہے جو وردی والوں کی دہشت گردی سے اور بھونکتی بندوق سے بچ گیا وہ ہاف فرائی اور جو مارا گیا وہ فل فرائی اور سندھ کی معصوم مائیں اپنے میلے دو پٹے اپنی کمر پر باندھ کر پولیس موبائل کے پیچھے بھاگتی رہتی ہیں اور ان کے منھ میں آتی ہے چلتی گاڑی کی دھول!
ایک دو سالوں سے نہیں پر سندھ تو چودا سالوں سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لائن میں لگا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ کی انگلیاں اس لیے کٹ جا تی ہیں کہ چوکیدار کو غصہ آتا ہے اور وہ رش کے درمیاں زور سے دروازہ بند کرتا ہے
ایک دو سالوں سے نہیں یہ تو سندھ کی آنکھوں میں منظر چودا سالوں سے محفوظ ہے اور ہر روز ہے کہ جب کوئی سندھ باسی مرتا ہے تو اس کی لاش کسی ایمبولینس سے اس کے گھر نہیں جاتی پر وہ لاش یا تو موٹر بائیک، یا تو چنگ چی رکشہ یا گدھا گاڑی میں لے جائی جاتی ہے
ایک دو سالوں سے نہیں پر سندھ کا کارونجھر گذشتہ چودا سالوں سے کٹ رہا ہے اور کارونجھر کے مور فریادی بنے ہوئے ہیں
معصوم بچوں کا دوا اور دودھ کے نہ ہونے سے مرجانا، ماؤں کا مٹھی کا تھکا دینے والا سفر
سنگ زدہ بچوں کا ماؤں کی جھولیوں میں مر جانا
فل فرائی، ہاف فرائی، بندوق اور وردی کی دہشت!
اداس لاشوں کا پوسٹ مارٹم نہ ہونا
طاقت وروں کا حسین چہروں کو کاری کر دینا
ہندو لڑکیوں کا اغواء
کارونجھر کا کٹ جانا
ان سب کے ہوتے ہوئے سندھ پیپلز پارٹی کی کالک کا ٹیکہ برداشت کر رہی تھی
اور جیسے تیسے سندھ سانس لے رہا تھا
پر اب تو سندھ جل رہا ہے
اور سندھو میں اتنا جل نہیں کہ وہ جلتے سندھ کو بجھا پائے
اور جلتی ہوئی آگ کیا چھوڑتی ہے؟!
کچھ بھی نہیں
پھر چاہیے وہ آگ دامن کو لگے، گھر کو لگے یا غلافہ کعبہ ہو
اب کے بار آگ سندھ کے دامن کو لگی ہے اور سندھ جل رہا ہے!
اور پیپلز پارٹی کے وزراء بھی کراچی میں بیٹھ کر چودا سالوں سے بکواس کر رہے ہیں کہ انہوں نے تو سندھ کو پیرس بنا دیا ہے پر ان کا پیرس کیا ہے؟ کراچی؟
وہ سردار، میر بھوتار، پیر، امیر، سرمایہ دار، مرشد تو ان حلقوں میں بھی نہیں جاتے جن حلقوں سے وہ منتخب ہوتے ہیں اور پھر جب نظر آتے ہیں جب الیکشنی موسم ہوتا ہے
ابھی تو کوئی الیکشنی موسم نہیں تو وہ سندھ کے ان گاؤں، گوٹھوں، چورہاؤں، گلیوں میں کیوں جائیں جہاں آگ لگتی ہے تو کچھ بھی نہیں بچتا!
سندھ جلتے دامن کے ساتھ مزید نہیں چل سکتا
میہڑ کے سرداروں، میروں، پیروں کو چھوڑو
پر زرداری، بلاول، ناصر شاہ، مردار علی شاہ، درانی خور شید شاہ اور سعید کو غنی کو بتا دو
بس کراچی سندھ نہیں
سندھ کراچی سے بہت دور بھی ہے
لاڑ، کاچھو، تھر اتر بھی سندھ ہے
اور انہیں یہ بھی بتاؤ کہ سندھ جل رہا ہے
وہ میہڑ جہاں تین قبریں پہلے بھی انصاف کی منتظر ہیں
وہ میہڑ جہاں اُم رباب رو تی ہے اور خدا سے کہتی ہے
”اے خدا اپنے ہونے کا کچھ تو پتا دے!“
وہ میہڑ جہاں مہیندی کے کھیت ہوتے تھے
اب جلے ہوئے گوشت کی بد بو ہے
وہ میہڑ جہاں ماؤں نے میہندی کے پھول چُنے اور اپنے بیٹوں کے گیت گائے
اب اسی میہڑ میں یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا ہے
جو جلا ہے
وہ ماں تھی یا بیٹا
پربھات تھی
یا سوڈو؟!!
میہڑ کا جل جانا زرداری کے خلاف پہلی ایف آئی آر ہے
اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ سے زرداری پر دوسری ایف آئی آر کہاں درج ہو تی ہے؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں