میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں جتنی پارلیمانی جماعتیں ہیں بلا تفریق تمام مقتدرہ کے پیرول پہ ہیں، سب کی خواہش اور منشا یہ ہے کہ طاقت کا مضبوط مرکز ان سے راضی بہ رضا اور رابطے میں رہے اور الیکشن میں دھکے دے کر اقتدار کی مسند تک پہنچائے، کیا نیشنل پارٹی، کیا بی این پی مینگل، کیا عوامی شوامی طاقت کی مضبوط مرکز کے حمام میں سب ننگ دھڑنگ لائن میں کھڑے ہیں۔
ہم ہمیشہ نیشنل پارٹی پر تنقید کرتے رہے ہیں کہ بلوچستان کے معاملات میں اس کی قیادت نے سوداگری کی، بلوچ وسائل کے بندربانٹ میں شریک رہی، یہ کیا وہ کیا یہ کہ نیشنل پارٹی بلوچ دشمن جماعت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نیشنل پارٹی بلوچ دوست نہیں اور نا ہی اس جماعت نے اقتدار میں رہ کر بلوچستان کے معاملات پر قوم پرستانہ کردار ادا کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نیشنل پارٹی نے چار ستاروں کے ساتھ دوسروں کی طرح جذباتی نعروں کا سہارا نہیں لیا، اس جماعت نے کھل کر بلوچستان کے بجائے وفاقی سیاست کی ہے اس کا مطلب ہے کہ نیشنل پارٹی خالصتاً ایک بلوچ قوم پرست جماعت نہیں بلکہ اپنے بطور ایک وفاقی جماعت ہے۔
دوسری جانب بی این پی مینگل جن کا بزعم خود بلوچستان کی سب سے بڑی قوم دوست جماعت ہونے کا دعویٰ ہے۔ اس جماعت نے الیکشن سے قبل مشہور زمانہ شش نکات کا سہارا لے کر جزباتی ماحول پیدا کیا، یہ جماعت پارلیمنٹ میں خود کو کسی دوسرے کے مقابل سب سے بڑا قوم پرست سمجھتی ہے۔
شش نکات کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے کر اس جماعت نے بھی کہیں سے ساز باز کے ذریعے صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں واضح پوزیشن پر سیٹیں لیں۔ بلوچستان کے سب سے بڑے قبائلی سیاسی سردار اختر جان مینگل خود قومی اسمبلی جاپہنچے۔
اس جماعت نے دو ڈھائی سال پی ٹی آئی کی نیم آمریت کے ساتھ باپ پارٹی کے ہمراہ اسمبلی میں لمبی چوڑی تقاریر کا سہارا لے کر جذباتی ماحول برقرار رکھا۔ اس جماعت نے حکومت کی حمایت کے عوض دس ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کی مد میں لیے، اس جماعت نے ہر فورم اور ہر معاملے میں عمران خان کی فاشزم کو سپورٹ کیا، اس نے آرمی چیف کے ایکسٹینشن میں حکومت اور فوج کو سہارا دیا۔
عمرانی فاشزم میں بلوچستان جلتا رہا، بلوچ بچے اغوا ہوتے رہے، بولان سے گوادر تک فوجی آپریشن جاری رہا، بارڈر کے معاملات کو اپنی تحویل میں لے کر فوج نے استبداد کی نئی تاریخ رقم کی۔ پچھلے سال بارڈر پر مزدوری کرنے والے ضلع کیچ کے بلوچ ڈرائیور سے جبری مشقت لیا گیا جس میں بھوک پیاس سے ایک ڈرائیور شہید ہوا۔
اس سال چاغی جہاں سردار اختر مینگل اور میاں محمد نواز شریف نے 1998 میں مل کر ایٹمی دھماکہ کیا جس سے بلوچستان میں جان لیوا کینسر کی بیماری شروع ہوئی وہاں نوکنڈی میں بارڈر پر مزدوری کرنے والے ڈرائیور کو جبریت کا شکار بناکر بھوک پیاس سے ہلاک کیا گیا۔
نوکنڈی میں جب فوجی استبداد سے چار مزدور ڈرائیور شہید ہوئے اور اس واقعہ کے خلاف شہریوں نے پر امن احتجاج کیا تو نہتے شہریوں پر فائرنگ کرکے دس کو زخمی کردیا گیا جس میں ایک بعد میں شہید ہوا۔ آج ایک بار پھر چاغی میں نہتے عوام پر فائرنگ اور زخمی کرنے کی اطلاعات ہیں۔
جب چاغی میں بلوچ مزدور ایف سی کی استبداد کے سبب بھوک اور پیاس سے مررہے تھے اسی وقت سردار اختر جان مینگل قومی اسمبلی میں میاں نواز شریف کے چھوٹے چھوٹے میاں محمد شھباز شریف کو وزیراعظم بننے کی مبارک باد دے کر آئین کو ملک جوڑنے کی ضمانت قرار دے رہے تھے۔
اسی چاغی میں ایٹمی دھماکہ سے لے کر سیندک جیسے اہم قومی اثاثے کی بندربانٹ تک سردار اختر جان مینگل حکومت کا حصہ ہیں۔ بلوچ آج بھی مررہے ہیں، کہیں بھوک پیاس سے تو کہیں گولیوں سے، پارلیمنٹ قائم ہے اور آئین بقول سردار اخترجان مینگل ملک کی سلامتی کا ضامن ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں