محبت میں شرک کفر ہے ۔ منیر بلوچ

747

محبت میں شرک کفر ہے

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی فطرت ہے کہ وہ جس جگہ جنم لیتا ہے۔ اس جگہ سے ایک خاص لگاؤ اور محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ بلوچستان بلوچ قوم کی سرزمین ہے۔ بلوچ قوم کو اپنے وطن سے عشق اور محبت ہے۔ کسی عاشق اور مجنوں کو یہ کہاں برداشت ہوتا ہے کہ اس کا عشق کسی غیر کے چنگل میں پھنس جائے۔ بلوچ نے اپنے وطن کے دفاع اور اپنی محبت کا اظہار ہر دور میں کیا ہے۔ بلوچ علم رکھتا ہے کہ محبت اور عشق میں شرک کفر ہے اور کوئی مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ شرک کے کیا معنی ہے۔

پاکستان نے بلوچستان پر 1948 میں قبضہ کیا تھا جس کے رد عمل میں بلوچوں کا نہ ختم ہونے والے جدوجہد کا سلسلہ جاری ہے جس کا اختتام بلوچستان کی آزادی پر منتج ہوگا۔

اس 70 سالہ دور غلامی میں بلوچوں نے اپنے وطن سے عشق اور محبت کی وہ داستان رقم کی جس کی گواہی بلوچستان کے پہاڑ، صحرا، سمندر دیں گے۔مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی سے لے کر اجتماعی سزا تک بلوچ ظالم کے بندوق کے سامنے کھڑا رہا اور آج بھی کھڑا ہے لیکن بلوچ قوم کے دل سے زمین کی مہر و محبت و جنون ختم نہ کرسکا بلکہ اس میں ظالم کے ظلم کی رفتار سے زیادہ اضافہ ہوتا جارہا ہے، ریاست یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ بلوچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیں گا، بلوچوں کو اپنی سرزمین سے نقل مکانی پر مجبور کرکے اس کو اقلیت میں تبدیل کردیگا لیکن ریاست یہ بھول گیا ہے کہ مجنوں اپنی لیلیٰ کے لئے، فرہاد اپنے شیریں کے لئے ہر درد سہتا ہے لیکن محبوب کی جدائی برداشت نہیں کرسکتا۔ اسی طرح بلوچ ظلم کو برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنے وطن کے دفاع اور اسکی محبت سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا اور ایک دن وہ اپنے عشق اور محبت کو دائمی پالیگا۔

گذشتہ دنوں چاغی کے علاقے دالنبدین میں ریاستی سیکورٹی فورسز نے ڈرائیور پر فائرنگ کی جس کی نتیجے میں ایک ڈرائیور حمید اللہ شہید ہوا جس کے رد عمل میں احتجاج شروع کیا گیا جس پر فائرنگ کی گئی، اس فائرنگ کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے، گاڑیوں کے بیٹری نکال کر انجنوں میں ریت ڈال کر ڈرائیوروں کو گرم صحرا میں بے یار و مددگار پیدل سفر پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں مزید تین ڈرائیورز شہید ہوگئے۔ کل ایک مرتبہ پر احتجاجی مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں 8 افراد زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوچکی ہے۔

کہتے ہیں خدا کی وجود میں کسی کو شریک کرنا کفر ہے، لیکن کچھ عناصر دانستہ یا نادانستہ ظالم کے ظلم کے خوف سے شرک کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اللہ تعالٰی ہی وہ ذات ہے جس کے ہاتھ انسان کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہونا ہے تو انسان کیوں ایک ظالم کی بندوق کے ڈر سے منہ پر قفل لگا دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن پھر بھی کفر پر مجبور ہے۔

ریاست اور اسکے حواری یہ جان لیں کہ بلوچ اپنی سرزمین سے محبت کرتا ہے اور جنون کی حد تک محبت کرتا ہے۔ اس محبت کو یونانی، برطانیہ، تاتاری، مغل اور دیگر طاقتیں ختم نہیں کرسکی تو پاکستان کیسے ختم کریں گا اور بلوچ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ محبت میں شرک کفر ہے اور بلوچ کبھی بھی کفری نظام کو تسلیم نہیں کریں گا بلکہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزاحمت کے راستے کو اپنا کر اپنی محبت کو حاصل کرلے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں