عاشقوں کے ہاتھ خالی، بلند اور آزاد ہو تے ہیں! ۔ محمد خان داؤد

275

عاشقوں کے ہاتھ خالی، بلند اور آزاد ہو تے ہیں!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

بلاول بھٹو کے جلسے میں لوگ اس لیے جاتے ہیں کہ انہیں وڈیرے جانوروں کی طرح ہانک کر لے جا تے ہیں اور بشیر خان قریشی کے جلسے میں لوگ اس لیے جا تے تھے کہ لوگ ان کی بولی سمجھتے تھے۔
بلاول بھٹو کے جلسے میں لوگ اس لیے جاتے ہیں کہ اس پارٹی سے لوگوں کے مفاد وابستہ ہیں اور بشیر خان قریشی کے جلسے میں لوگ اس لیے جاتے تھے کہ لوگوں کو معلوم تھا کہ اس دیوانے کو سندھ سے محبت ہے۔
بلاول بھٹو کے جلسے میں لوگ اس لیے جاتے ہیں کہ ان کی انٹری ہو جائے کل کلاں کوئی وڈیرے تنگ نہ کرے اور بشیر خان قریشی کے جلسے میں لوگ اس لیے جاتے تھے کہ وہ جلسے نہ تھے وہ ماں کی پکار ہوا کرتی تھی۔
بلاول بھٹو کے جلسے میں لوگ اس لیے جاتے ہیں کہ انہیں چند سو روپے اور بریانی کا پیکٹ مل جاتا ہے۔ بشیر خان قریشی کے جلسے میں لوگ اس لیے جاتے تھے کہ محبت انہیں بلاتی تھی اور وہ کچھے چلے جاتے تھے۔
بلاول کے جلسے میں لوگ جانتے ہیں کہ یہ شو بابو اپنی تقریر میں بھٹو کی اداکاری کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور بشیر خان قریشی کے جلسے میں تقریر کے دوران لوگ جانتے تھے کہ “وڈو” دانشور نہیں نقال نہیں، عالم نہیں یہ عاشق ہے اور عاشق علم سے دور بھاگتے ہیں!
بلاول بھٹو کے جلسے میں لوگ اس لیے جاتے ہیں کہ یہ بھیڑوں کی طرح نظر بند ہیں ایک بھیڑ دوسری سے بندھی ہوئی ہے۔ دوسری تیسرے سے اور پھر چھوتی بس حکم وڈیروں کو حکم ملتا ہے اور یہ ریوڑ چل پڑتا ہے۔ جب کہ بشیر خان قریشی کے جلسے میں لوگوں کے دل سندھ سے جڑے ہوتے تھے یہاں اعلان ہوا اور وہاں قافلے کراچی کی جانب چلنے لگے!
بلاول بھٹو کے جلسے میں لوگ اس لیے شامل ہوتے ہیں کہ لوگوں کے معاشی مسائل ان کے ساتھ ہیں اور بشیر خان قرشی میں لوگ اس لیے شامل ہوتے تھے کہ لوگوں کے ساتھ دو دو مائیں نہتی ہوتی تھیں ایک سر پر بوسہ دینے والی بال سنوارنے والی اور دوسری بعد از مرگ اپنے دامن میں بسانے والی!
لوگ بلاول بھٹو کی عالمانہ، دانشورانہ اردو تقریر انگریزی تڑکے کے ساتھ بھی نہیں سمجھتے لوگ جانتے ہیں یہ سب بکواس ہے یہ سب جھوٹ یہ یہ الفاظوں کے ساتھ زنا ہے۔ یہ باتوں کی کرپشن ہے۔ جب کہ لوگ جانتے تھے کہ بشیر خان قریشی کوئی عالم نہیں، کوئی دانشور نہیں اسے تو تقریر کا ڈھنگ بھی معلوم نہیں وہ تو اردو باتوں میں بھی سندھی الفاظوں کو ملا دیتا ہے۔ پر لوگ جانتے تھے کہ یہ باتیں سچ ہیں۔ ان باتوں میں محبت ہے۔ ان باتوں میں اخلاص ہے اور بلاول کی باتیں ایسی ہوتی ہیں جیسے کسی جنرل کے جوتے کی ٹھوکر جب کہ بشیر خان قریشی کی باتوں میں وہ لذت ہوا کرتی تھی جیسی شِیر مریم کی مٹھاس!
کہاں کسی جنرل کی دھمکی!
کہاں کسی ماں کاپستان!
کہاں کسی جنرل کا آڈر
اور کاکہاں کسی ماں کی ممتا!
کہاں انگریزی نماں اردو کا چسکا
اور کہاں، بولی منھنجی بانھبایانی اللہ!
تو بلاول کی باتیں کسی بھی حکمران کا حکم ہو سکتی ہیں، جسم پر چبتے کوڑے ہوسکتے ہیں پر ان باتوں میں وہ مٹھاس نہیں جو کسی مجنوں کی محبت بھری باتوں میں ہوا کرتی ہے۔
بلاول بھٹو نے آج تک جو بولا ہے رومن انگریزی میں لکھا بولا ہے اور بشیر خان قرشی نے جو کہاں ہے دل کی آواز سے کہا ہے۔
بلاول بھٹو یہ بکواس تو کر سکتا ہے کہ “جمہوریت بہترین انتقام ہے!”
پر اس میں یہ جرات کبھی نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے بابو انگریزی لبوں سے کہے کہ
“عمر یست کہ آوازِ منصور کھن شد
من از سرنو جلوہ دھم دارو رسن را”
(عرصہ ہوا ہے کہ منصور کی آواز پرانی ہوئی ایک بار پھر نئے دارو رسن کو سنوارنا چاہتا ہوں)
اور جب بھی بشیر خان قرشی ہزاروں لاکھوں کے اجتماع سے روبرو ہوئے ہیں تو یہی کہا ہے کہ
“عرصہ ہوا ہے کہ منصور کی آواز پرانی ہوئی ایک بار پھر نئے دورو رسن کو سنوارنا چاہتا ہوں”
بلاول بھٹو نے جمہوریت کی دنب کو تھاما ہوا ہے اور بشیر خان قرشی نے ماں جیسی محبوبہ کا حسین چہرہ، جب بھی بلاول ڈوبنے لگتا ہے تو جمہوریت کی دنب کو پکڑ لیتا ہے اور جب بھی محبت بشیر خان قرشی پر کسی بارش کی ماند برستی ہے تو وہ اپنی ماں جیسی محبوبہ اور محبوبہ جیسی ماں کا روشن چہرہ سامنے کر کے اس کے بوسے لینے لگتا ہے۔
جمہوریت پسند انسانوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں وہ جوتیاں سیدھی کرنے سے لیکر کرسیاں سیدھی کرتے ہیں وردی کو استری کرنے سے لیکر لانگ شوز پر پالش کرتے ہیں اور اگر جمہوریت سے زیادہ وفادار ہوتے ہیں تو ان لانگ شوزوں کو اپنی پگڑی سے بھی صاف کرتے ہیں جب کہ عاشق جانتے ہیں کہ ان کے ہاتھ خالی، آزاد اور بلند ہوتے ہیں!
بشیر خان قرشی کے ہاتھ بھی خالی، آزاد اور بلند تھے!
ان ہاتھوں نے لاکھوں ہاتھوں کو چومہ اور ان خالی ہاتھوں کو بھی لاکھوں ہاتھوں نے چومہ!
وہ خالی ہاتھ آزاد رہے!
وہ خالی ہاتھ بلند رہے!
بشیر خان قرشی کے ہاتھوں پر لاکھوں بوسوں کے میٹھے میٹھے اور جلتے نشان تھے۔
اور وہ ان میٹھے میٹھے جلتے بوسوں کے نشانوں کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا تھا اوراس کے پاس کیا تھا سوائے اپنے سر کے اور ان بوسوں کے نشانوں کے؟!
سر تو وہ ماں کے قدموں پر نچھاور کر گیا اور اپنے بوسہ زدہ ہاتھوں کو اس دھرتی میں ایسے سما گیا جیسے مہندی کے پھول کا بیج! وہ بھی مہندی کے پھول کا بیج تھا جو اب محبت کی کونپل بن کر نکلے گا اور پوری سندھ کو مہکا دے گا!
بلاول بھٹو اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں جلسہ کرنے جا رہا ہے جس کا حکم نافظ ہوچکا ہے اور سندھ کے سرداروں، بھوتاروں وڈیروں میں بے چینی سی پھیلی ہوئی ہے کہ وہ لوگوں کو کیسے لائیں پر وہ جانتے بھی ہیں کہ سندھ کے لوگ تو بھیڑے ہیں ایک دوسرے سے بندھی ہوئی۔ وہ آئیں گے اور بلاول کا پرانا بھاشن نئے انداز سے سنیں گے پر کیا بلاول بھٹو میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ اب وہ بھٹو کی نکالی نہ کرے اور جمہوریت بہترین انقلاب ہے کا راگ نہ الاپے پر کہیں کہ
“عرصہ ہوا ہے کہ منصور کی آواز پرانی ہوئی ایک بار پھر نئے دارو رسن کو سنوارنا چاہتا ہوں”
نہیں وہ بس بابو شو باز ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں جب کہ بشیر خان قریشی ایک آزاد ملنگ انسان تھا
اس کے ہاتھ آزاد تھے اس کے لب آزاد تھے۔ اس کی دل آزاد تھی۔ اس کے نین آزاد تھے پر اس کا دیس آزاد نہیں تھا اسی لیے وہ غلام دیس میں رہ کر بھی اپنے جلسوں کی کاروائی ایسے الفاظوں سے کیا کرتا تھا کہ
“عرصہ ہوا ہے کہ منصور کی آواز پرانی ہوئی ایک بار پھر نئے دارو رسن کو سنوارنا چاہتا ہوں”
اور ان الفاظوں کا شور اب بھی سندھ کی دھرتی پر سنائی دیتا ہے
اور ہر کوئی پیچھے مڑکر دیکھتا ہے تو ایک سرخ قبر ایک سرخ پرچم کے سوا
کچھ بھی نہیں!
کچھ بھی نہیں!
کچھ بھی نہیں!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں