شہید آفتاب جان کے نام
تحریر: ھونک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اگر انسان کی تاریخی پس منظر پر نظر ثانی کی جائے تو ہمیں بیک وقت کرہ ارض پر مختلف سماجوں میں بادشاہت، ظلم، غلامی، انقلاب اور جدوجہد کے کئی رنگوں میں مختلف واقعات اور حادثات نظر آتے ہیں۔ وہ قومیں جنہوں نے ظلم، جبر اور استبدادی قوتوں کو تسلیم کیا اور سر نیچے جھکا کر غلامی کو مانا انسانی تاریخ میں ان کی وجودیت کا ذکر نا ہونے کی برابر ہے۔ وہ قومیں جنہوں نے ظلم و جبر اور قبضہ گیر قوتوں کے خلاف سر نہ جھکایا اور سنگلاخ و بلند پہاڑوں کی طرح ڈٹے رہے، تو اپنے بہتے ہوئے سرخ خون سے تاریخی داستانوں میں امر رہے اور رنگین تاریخ پانے میں کامیاب ہوئے جنہیں آج کے موجودہ وقت میں بھی لکھا، پڑھا اور یاد کیا جاتا ہے اور انقلابی تحریکوں میں ان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قبضہ گیر ریاست نے مظلوم قوموں پر قبضہ و تشدد کیا ہے تو جوابی تشدد میں ہمیشہ قبضہ گیر قوتوں کو شکست خوردگی کا سامنا رہا ہے، چاہے وہ ویتنامی سرزمین پر آمریکہ جیسی ریاست ہو یا الجزائر میں فرانس یاکہ دوسرے مظلوم قومیں ہوں سب کی جدوجہد سے انہیں آزادی ہی ملی ہے اور ظالموں کو شکست۔
اگر بلوچستان کی سرزمین پر کئی دہائیوں سے جاری پاکستان کی ریاستی مظالم کے خلاف بلوچ قومی تحریک آزادی پر نظر دوڑائی جائے، تو اس طویل عہدی جدوجہد میں بلوچ قومی آزادی کی خاطر قربان ہونے والے سروں کی حقیقت ہر آنکھ کے سامنے عیاں ہیں کہ کس طرح بلوچ نوجوانوں نے اپنے قومی بقاء اور قومی آزادی کی خاطر ہر قربانی دی ہے اور دیتے آرہے ہیں۔
پاکستانی ریاستی قبضہ گیریت کے روز اول سے لیکر آج تک بلوچ زمین زاد اپنے قومی بقاء اور سرزمین بلوچستان کی خاطر قربانی دینے سے کبھی ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں بلکہ بلوچ قومی آزادی پر یقین رکھتے ہوئے قربانی کے فلسفے پر کاربند ہیں۔
ان زمین زادوں میں سے ایک آفتاب جان عرف وشین ہیں کہ جس نے اپنے زندگی کے سارے ذاتی خواہشات کو ترک کر دیئے اور قومی بقاء کی حفاظت کی خاطر پہاڑوں کیجانب گامزن ہوا اور بلوچستان کے خاطر دیئے گئے قربانیوں کی سنہری تاریخ میں امر رہے۔
آفتاب جان مجھے یاد ہے 3 جون کی وہ شام جب مجھے ہکّل کے ٹیلی گرام چینل پر تمہارے شہادت کی خبر ملی، بہت ہی عجیب کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے انسان جب اُسے اس طرح کا صدمہ پہنچتا ہے، انسانی جذبات کا تو کوئی بھروسہ نہیں اس وقت آنکھیں نم بھی ہوئیں، مگر فخر کے جذبات آسمانوں کو چھو رہی تھی کہ تمہارا سرزمین کی خاطر قربان ہونے کا خواب پورا ہوچکا تھا۔
وقت کس طرح گذر جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا، تمہارے شہادت کو ایک سال پورا ہونے کو ہے لکین سب کچھ کل کی باتیں لگتے ہیں۔ اس طرح لگتا ہے کہ کل ہی ہم ساتھ بیٹھ کر بحث و مباحثہ کر رہے تھے جیسا کہ کل ہی ہمارا دیوان ہوا ہو۔ جب بھی بیرگیر کے ساتھ دیوان ہوتا ہے تو ہم تمہارے بارے میں ہی بات کرتے رہتے ہیں، ماضی کی سارے مذاق، شغل اور دیوانوں کو یاد کرتے ہوئے بیرگیر کے ہونٹوں پہ کھبی مسکراہٹ تو کبھی آنکھوں میں نمی آجاتی ہے، ہمارا بیرگیر ہے ہی ایسا۔ کھبی کھبی تو وہی پرانے واٹس ایپ کے چارٹس کو میں سنتا اور دیکھتا ہوں، پہلے میسج سے لیکر آخری رخصت تک، مزاقاً، شغل، تحاریر، براہوئی، تمہاری ٹوٹی پوٹی بلوچی، تہمارے ساری شاعری اور تمہارے تھم تھم کر بلوچی میں بات کرنے کا انداز، اس طرح لگتا ہے کہ کل ہی ہوا ہو سب کچھ، میں تم بیرگیر اور مہران دیوان میں بیٹھ کر بحث و مباحثہ اور مذاق کر رہے ہوں۔ خیر کلم بند کرنے کیلئے تو بہت کچھ ہے لیکن تمھارے کردار کے اوپر میرے جیسا نامعقول شخص جتنا بھی لکھے کم ہی پڑے گا۔
یقیناً 31 مئی کی اس شام بولان جھوم اٹھا ہوگا، جب مارواڑ، بولان کے پہاڑوں میں تم اور باقی فرزندانِ زمین، سر پر کفن باندھے آزادی کا جذبہ سینے میں لئے ہوئے، بولان کے پاک سرزمین سے پاکستانی ریاستی ناپاک مسلط شدہ فوج کو مار گرانے میں کامیاب ہوئے۔
حقیقتاً قربانی کے بغیر آزادی ناممکن ہے اور اسی قربانی کے فلسفے پر گامزن آفتاب جان تم نے اپنے سرمچار ساتھیوں شہید ہنگل اور شہید شاویز کے ہمراہ اپنے بہتے ہوئے خون سے مارواڑ کے پہاڑوں کو سیراب کیا۔ اس سے زیادہ بہتر ایک فرزندِ زمین کیلئے اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے ماں جیسی زمین کے خاطر قربان ہونے کا موقع ملے اور بولان کے پہاڑوں میں شہادت نصیب ہو۔ یقیناً یہ ہر اس بلوچ آزادی پسند نوجوان کی خواہش ہے کہ تمہاری اور باقی ہزاروں بلوچ سرمچاروں کی طرح وطن کی دفاع کی خاطر قربان ہو۔
دعا ہے کہ بلوچ سرزمین کی آزادی کے ہر پہلو میں جہدو جہد کرنے والوں اور قربان دینے والوں کا سلسلہ تا بلوچستان کی آزادی اور آخری منزل تک پہنچنے میں قائم رہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں