شہدائے مُرگاپ
تحریر: زیردان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں اس قدر رشک لکھاری تو نہیں اپنی قومی راہشون چیئرمین واجہ غلام محمد جیسے انسان کی قربانیوں کو وضح کرسکوں، لیکن پھر بھی کچھ جملے قلم بند کرنا چاہتا ہوں، چیئرمین غلام محمد بلوچ ایک جرات مند بہادر قومی رہنماء تھے واجہ غلام محمد بلوچ حق کی بات کو دشمن کے آگے سینہ تھان کر کہنے والے لیڈر تھے آپ نے قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر آگے چلنے کے لئے ہر قسم کے رکاوٹ اور مشکلات کا جگر دلی سے سامنا کیا، آپ کی بہادری اور راست گوئی سے سرزمین کی عشق کی انتہاء اور قوم کی مظلومیت دیکھنے کو ملتے تھے۔
جب چیئرمین واجہ غلام محمد کو دشمن نے ہر بار نئی مقدمات کا سامنا کرایا تو دوستوں نے آپ کو مشورہ دیا کچھ دنوں کے لئے آپ سرفیس سے دور رہیں یہ بزدل دشمن ہے انہیں سیاست اور بلوچ قوم کی حق کی خاطر بولنے والے انسان سے ڈر اور اپنی فنا کی بو محسوس ہوتی ہے ایسا نہ ہو آپ کو خدانخواستہ کچھ نقصان نہ دیں لیکن چیئرمین واجہ غلام محمد کی ہر وقت یہی بات ہوتی تھی دشمن اس رویہ کو اس لئے پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ ہم اپنی قوم سے دور رہیں اور انہیں دشمن کی گھناؤنے چہرے کی اصلیت نہ دکھا سکیں، اگر ہماری قوم و سرزمین کو میرا خون چاہیے تو میں ہر وقت حاضر ہوں۔
آزادی کی عظیم جدوجہد بغیر قربانی سے اپنی عظیم منزل تک نہیں پہنچ پاتی، اس لئے قومی جدوجہد کے عظیم سرکردہ رہنماء واجہ غلام محمد ایک عوامی مجمع میں عرض کرتا ہے۔ “ہم دوسروں کی شہادت پر انہیں سرخ سلام پیش کرتے ہیں لیکن اپنے لئے اس عظیم رتبہ شہادت کو کیوں نہیں چاہتے”
شہدائے مُرگاپ کی عظیم جدوجہد اور شہادت (ظفریاب) اقتضا کرتی ہے ایک قومی جہدکار خوش بیانی سے دور ہوکر عملی بنیادوں پر جدوجہد کا حصہ بن کر اور انقلابی اصولوں پر کاربند رہیں۔
چیئرمین غلام محمد بلوچ نے اپنی شب و روز کی کوششوں سے اور اپنے عظیم دوستوں کے ساتھ مظلوم قوم کو ایک ایسا ادارہ دیا آج قومی جدوجہد کی پزیرائی ثابت ہوئی ہے، اور ادارے کی نفحات اُس وقت تک قومی مفادات پر پورا اتر سکتی ہیں جس سوچ غلام محمد بلوچ نے ہمیں دی ہے وہی سوچ اداروں میں ہوتے ہوئے فرد سے بالاتر ہوں۔
واجہ غلام محمد بلوچ قوم پرستی کے نظریہ سے لیس ایک کامل جہدکار کے ہوتے ہوئے عظیم اور بہادر قومی لیڈر تھے۔ آپ نے اپنی فرض شناسی، شبانہ روز اپنے پارٹی کو منظم کرنے اور قومی سوچ کو تابناکی دینے میں صف اول میں شمار ملتے تھے، آج بھی آپ پوری قوم کے دلوں میں ایک عظیم شخصیت کے مالک ہیں۔
بزدل دشمن غلام محمد اور اس کے عظیم ساتھیوں کی جدوجہد سے خوفزدہ ہو کر تربت میں تین اپریل دوہزار نو کو واجہ کچکول ایڈوکیٹ کے چمبر سے جبری گُمشدگی کا شکار بناتا ہے اور 9 اپریل دو ہزار نو کو قومی عظیم سپوتوں کو شہید کرکے تربت شہر سے دور مرگاپ کے مقام پر لاشیں پھینک دیتی ہے۔
شاہد دشمن نے یہی فیصلہ کیا تھا میں نے غلام محمد بلوچ، لالا منیر بلوچ، واجہ شیر محمد کو شہید کرکے بلوچ قوم کے آزادی کے عظیم جدوجہد کو کاونٹر کیا لیکن یہ دشمن کی بزدلی اور ناکامی کے دن کی شروعات تھی چیئرمین واجہ غلام محمد اور ان ساتھیوں کے خون نے پورے بلوچستان میں قابض دشمن کے خلاف ایک ایسا نفرت کا بیج بویا آج تک دشمن اس نفرت کو دیکھ ذہنی مریض بن چکی ہے۔
شہدائے مرگاپ کی شہادت نے پوری قوم کو بیدار کیا اور دشمن کی طرف سے جو خوف ہماری دلوں میں پیدا کئے گئے تھے وہ خوف کوسوں دور، اور نوجوانوں کو قومی سوچ سے ممتاز کرایا، اور نوجوانوں میں سیاسی شعور پیدا کیا تاکہ اپنی سمت کو پہچان سکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں