بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کے علاقے آپسر بلوچی بازار سے گزشتہ سال 24 دسمبر کو جبری طور پر لاپتہ کیے گئے خلیل ولد دلوش کی والدہ زرگل اور حفیظ ولد وشدل کی والدہ مھرجان نے دیگر مقامی خواتین کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سی ٹی ڈی نے نصیر آباد میں ان کی اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ گرفتاری کا ڈرامہ رچاکر ہمیں ذہنی طور پر اذیت کا شکار کردیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ان کے دونوں بچوں کو گذشتہ سال 24 دسمبر کی رات 2 بجے گھروں میں سوتے ہوئے سادہ لباس اور وردیوں میں ملبوس فورسز کے اہلکاروں نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جس کے خلاف ہم نے پولیس تھانہ تربت میں رپورٹ درج کرانے کی درخواست دی لیکن پولیس نے رپورٹ درج نہیں کیا بلکہ ہمیں یہ دھمکی دی گئی کہ اگر اس بارے میں رپورٹ درج کیا گیا تو آپ کے بچوں کو قتل کیا جائے گا اسی خوف کی بنا پر ہم خاموش رہے لیکن سی ٹی ڈی نے روان سال 28 مارچ کو ان کی نصیر آباد سے گرفتار کا دعویٰ کیا ہے اور الزام لگایا کہ ان کے پاس اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کرلیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ سی ٹی ڈی کا یہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے پورا گاؤں اس بات کی گواہی دینے کو تیار ہے کہ ان دونوں بچوں کو آپسر بلوچی بازار تربت سے لاپتہ کیا گیا ہے اگر ہمیں کسی عدالت میں بلایا گیا تو ہم اس بات کی گواہی دینے کے لیے تیار ہیں۔
بعد ازاں انہوں نے علاقائی خواتین کے ساتھ ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور ان سے اپنے بچوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ان کے دونوں بچے بے گناہ ہیں انہیں رات کو سوتے وقت گھروں سے لاپتہ کیا گیا ہے جس کے ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں، ڈپٹی کمشنر کیچ نے کہا کہ ان کے بچوں پر ایف آئی آر درج کیا جاچکا ہے اور وہ ضلع کیچ سے باہر دوسرے ضلع میں پولیس کی حراست میں ہیں اس لیے وہ اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتے البتہ اس معاملے میں وہاں ڈپٹی کمشنر سے بات کریں گے۔