ریاستی غیر سنجیدگی اور بلوچ طلباء
تحریر: زیب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج سے تقریباً دو مہینے قبل قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی ایم فل فزکس کے طالب علم حفیظ بلوچ اپنی چھٹیاں گزارنے آبائی گاؤں خضدار چلے جاتے ہیں، جہاں طالب علم کو اکیڈمی سے دوران درس و تدریس ان کے طلباء کے سامنے 8 فروری 2022 کو چند نقاب پوش افراد جبری طور پر لاپتہ کرکے لیجاتے ہیں، اس کے بعد حفیظ بلوچ کے ساتھی طلباء اور انسانی حقوق کے کارکنان اسی دن سے آج تک روزانہ کے بنیاد پر سوشل میڈیا پہ حفیظ بلوچ کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔
حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی اور اسلام آباد یا بلوچستان سے باہر پڑھنے والے طلباء جو کہ اداروں میں ایک نئی قسم کی پریشانی میں دانستہ طور پر مبتلا کردی گئی ہے جہاں انہیں روزانہ کے معمول پر ہراساں کرکے، ہاسٹلز سے لیکر کلاس روم اور لائبریری تک تنگ کی جاتی ہے ان سے طرح طرح کی غیر ضروری سوالات کرتے ہیں جن کی طالب علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان واقعات سے کئی طلباء ذہنی مریض بن چکے ہیں اور کئی اپنی پڑھائی چھوڑ کر گھر چلے گئے ہیں، ان ظلم اور زیادتیوں کے خلاف بلوچ طلباء شروع دن سے لیکر آج تک اپنی جمہوری اور آئینی حقوق استعمال کرکے، اداروں کے اندر احتجاج اور کیمپس لگائے اور جب اداروں کی جانب سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا تو طلباء نے مجبور ہوکر اسلام آباد پریس کلب کے سامنے کئی بار پرامن احتجاج کئے اور ساتھ ساتھ ایک علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائی جن پر اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے لاٹھی چارج اور غیر انسانی طریقے سے تشدّد کیا گیا جس سے کئی طلباء زخمی ہوئے اور کئی کے ہڈیاں تک ٹوٹے، لیکن طلباء اپنے جائز اور قانونی حقوق سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے اور ڈٹے رہے، جن کی بلند حوصلوں سے مقتدرہ نے بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر ایک جھوٹی ایف آئی آر کاٹی گئی، جن میں کار سرکار میں مداخلت اور بغاوت کے سنگین مقدمات درج کئے گئے، جس کو بعد میں عدالتی حکم پر شرمندگی سے واپس لینا پڑا، ان کے باوجود علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ پہ بیٹھے طلباء کو دن رات ہراساں کیا گیا، انہیں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی گئی اور ان کے گھر والوں کو بھی اپروچ کئی گئی لیکن کہاں گذشتہ ستر سالوں سے ظلم اور جبر کی سائے میں پلے بڑھے بلوچ قوم ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے اور چھبیس دن تک مسلسل گرمی، سردی، آندھی طوفان اور بارش میں بھوک ہڑتالی کیمپ شدت سے جاری رہا، اور اس کیساتھ ساتھ ملک گیر کلاسز کا بائیکاٹ بھی کیا گیا۔
دوسری طرف عدالتی میں دائر کی گئی پٹیشن پر بھی سماعت ہوتی رہی، گذشتہ دن اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے وزیر داخلہ کو بلوچ طلباء سے ملاقات کرنے کا کہا گیا، عدالتی حکم کی پاسداری کرتے ہوئے بلوچ طلباء نے وزیر داخلہ سے ملاقات بھی کی جس میں طلباء کو نہ سنا گیا بلکہ بلوچ طلباء کی مذاق بھی اڑائی گئی اور اپنی اس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا جو کہ دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں، جس میں وزیر داخلہ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر آئندہ بھی آواز اٹھائی گئی تو نتائج بھی سنگین ہونگے اور آپ کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
بہر کیف ابھی بلوچوں کے لیے ایک سوچنے کا مقام ہے کہ ریاست کی سب سے بااختیار وزارت کی جانب سے بلوچ طلباء کی مسائل کو حل کرنا دور کی بات ہے سننے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ کوئی نئی غیر سنجیدہ رویہ نہیں ہے۔ یہ کام ہر حکمران نے اپنے دور میں کیا ہے اور بظاہر آئندہ بھی ہوتا رہے گا اس سے پہلے بھی لاپتہ افراد کے لواحقین کو دھوکہ دیکر ان کے احتجاج ختم کیے گئے اس سے پہلے بھی بہت کچھ ہوا ہے جو ایک لمبی داستان ہے۔
آخر کار بلوچ طلباء سے وقت اور حالات یہی تقاضا کررہے ہیں کہ ان واقعات اور ریاستی رویوں کے بارے میں سوچ و بچار کرکے ان حالات کی باریک بینی سے مشاہدہ کریں کہ بحیثیت قوم ہم کس نہج پر کھڑے ہیں اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ان کا ادراک کرے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں