ذاتی مفادات کے جہدکار
تحریر: سلال سمین
دی بلوچستان پوسٹ
ظلم، جبر، نا انصافی اور قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت کی تاریخ بہت ہی لمبی ہے دنیا میں جہاں بھی ظلم، جبر نا انصافی ہوا ہے تو وہاں بغاوت کا ہونا ایک فطری عمل ہے یہی بغاوت بعد میں انقلاب کی صورت میں سامنے آیا ہے انقلاب ہمیشہ مخلص ایماندار، فکری اور نظریاتی جہد کار لاتے ہیں مضبوط فکر اور ایک مضبوط سوچ ہی ہمیں ذاتی آسائشوں، خواہشات سب کو چھوڑنے اور اپنی جان اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اگر فکر پختہ نہ ہو سوچ سطحی ہو تو وہ جہدکار ہو یا لیڈر ہو کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتا اور اپنے ساتھ باقی جہد کاروں کو بھی ناکامی اور مایوسی سے دو چار کرتا ہے کمزور فکر والے جہد کار اجتماعی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
ذاتی مفادات کے جہدکار سے مراد وہ لوگ ہیں جو تنظیمی سرکلز میں ہوتے ہوئے بھی تنظیمی اصولوں کے پابند نہیں ہوتے اور تنظیمی کاموں کو ترجیح دینے کے بجائے وہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی سوچ ایک مخصوص شے پر نہیں ہوتا ۔جیسے کہ وہ دشمن کو نقصان دینے کے بجائے دشمن کی گولیوں سے بھاگے جاتے ہیں۔ ان کی سوچ منتشر ہوتی ہے جو خود کو اور اپنے خاندان کو ریاست کی ظلم و جبر سے بچانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ وہ غیر ضروری چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور وہ ایک آرام دہ زندگی گزارنے کے عادی ہوتے ہیں۔
زیادہ تر ہم نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہیں جو تنظیم میں کچھ سالوں تک اپنے مفادات کے لیے رہ کر خود کو ایک نظریاتی ساتھی قرار دینے کی کوششں کرکے اور تنظیم سے قول و قرار کرکے یورپین ممالک اور دوسرے امن پسند ملکوں میں جاکر تنظیم کے نام کو استعمال کرکے وہاں کے پناہ گزین بن جاتے ہیں۔ جو وہاں بعد میں رہائش پزیر ہوکر اسی تنظیم کی پالیسیوں کو ایک غلظ انداز سے بیان کرنے کی کوششں کرتے ہیں۔
کچھ لوگ تو تنظیم میں رہ کر ایسے بھی عمل نمودار کرتے ہیں جیسے کہ جب وہ ایک سپاہی کے روپ میں ہوتے ہیں تو وہ خود کو قابل، ہونہار، گوریلا جنگ کے اصولوں کی پابند اور ایک سیاسی مزاحمت کار ظاہر کرتے ہیں۔ کل جب آپ اس بندے کو کسی جگہ کے کمان سمبھالنے کو کہتے ہوں یا کیمپ کمانڈر بنا دیتے ہوں۔ تو یہی بندہ آپ کے پورے اُمیدوں پر پانی پھیر دیتا ہے اور اپنے ذمہ داریوں سے مکر جاتا ہے اور خود کو لیڈر کی روپ میں چھپا کر معذور اور تنگ دست کہہ کر اپنے ذاتی مفادات کے لیے تنظیم کے پیسوں پر عیاشی کی زندگی گُزارنا شروع کردیتا ہے ۔
اُس کے ذہن میں صرف ایک پُرامن جگہ، ایک محل جیسا گھر، بیوی زیورات سے ڈھکا ہوا ہوں، بیٹوں کی اعلیٰ تعلیم اور بعد میں ان کو قومی مفادات سے دور رکھنا، بیٹیوں کی شادی مالامال گھرانے میں ہوجائے اور خود کو نواب سمجھ کر محض ایک کرسی پر بیٹھ جانا۔ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو خود کی اور اپنے چاہنے والے لوگوں کی قربان ہونے سے ڈرتے ہیں۔
جیسے کہ ان کے گھر سے اگر کوئی یہ ظاہر کرے کہ مجھے اس جہدوجُہد میں شریک ہونا ہے۔ تو یہ لوگ اس بات پہ راضی نہیں ہوتے اور یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ اِس جہد سے وابستہ جہد کار سب چور اور ڈاکو ہیں یا غیرذمہ دار عمل کرتے رہتے ہیں ۔
یہ الفاظ بھی کہتے ہیں کہ ہم غلطی سے یہاں آکر پس گئے ہیں اور اب ہم اپنے خاندانی نام کی وجہ سے سرنڈر نہیں کرسکتے یا ہمارے کچھ مجبوریاں ہیں جو ہمیں تنظیم سے وابستہ رکھتے ہیں۔ تو یہ بات میں آپ کو بتا دو کہ اصل میں ان کی کوئی مجبوری نہیں ہوتی اور نہ ہی آپ ان کو تنظیم کے دوست خواہ ٹہرا سکتے ہیں ۔
یہ وہ زہریلے سانپ ہے جو کئی روپوں میں ہمارے صفوں میں شامل ہیں۔ دراصل ایسے سوچ رکھنے والے لوگ بہت نیچ مکار دھوکے باز لالچی اور پیسے خور لوگ ہوتے ہیں۔ یہی لوگ جو آسانی سے دشمن کی سازشوں میں آکر تنظیم کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور پیسے کی لالچ میں یہ اپنے ہی ساتھیوں کی قیمتی جانوں کو دشمن کے ہاتھوں میں سونپ دیتے ہیں۔
یہ لوگ سرنڈر شدہ لوگوں سے بھی زیادہ نقصاندہ ہوتے ہیں اور کہی جگہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ کوئی ساتھی اگر ان کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے یا وہ ان کی حکم کا پابند نہیں ہوتا ہے تو یہ کوئی بھی غلط جنگی حکمت عملی بنا کر اُس ساتھی کو شہید کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ان بے وقوفوں کو یہ نہیں معلوم کہ جو ساتھی قربانی دینے آیا ہے وہ اُستاد اسلم اور گُلزار امام جیسے لیڈروں کے پیروکار ہے۔
جیسے اُستاد نے ریحان کو قربان کیا اور گلزار امام ناصر کی قربانی سے مکر نہیں گیا۔ ویسے تو ہر باپ اُستاد اسلم جیسا دل اپنے سینے میں رکھتا ہے اور ہر روز اپنے بیٹوں کو وطن کی چاہت پر قربان کر رہے ہیں۔ ویسے تو ہر بھائی گُلزار امام جیسا سوچ رکھتا ہے اور اپنے بھائیوں کو اس راہ میں آنے والے نسلوں کے لیے مینار بنا دیتے ہیں۔
اب یہ جنگ کسی کے لیے رُکھتا نہیں ہیں تم اپنی زندگی کو کیسے بھی گُزار لو لیکن موت تو برحق ہیں۔ وہ اپنے مقررہ وقت پر آئے گا۔
ایک بات ہے جب آپ اس مٹھی سے غداری کرتے ہوں تو آپ خود کو رسوا اور زلیل پاؤگے کیونکہ غدار کے لیے معافی کی کوئی گُنجائش نہیں ہوگی اور آنے والا نسل آپ کی سوچ سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا اور وہاں صرف ایک ہی راستہ ہوگا وہ ہے قربانی کا۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ایسے لوگ اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنے قومی مفادات کو ترجیح دے اور کسی بھی کسم کی قربانی سے گریز نہ کرے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں