دیس کی گلیاں تم پہ نچھاور شاری ۔ محمد خان داؤد

451

دیس کی گلیاں تم پہ نچھاور شاری

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ دیس پر خوشبو بن کر نچھاور ہوگئی
تمام کتابیں پیچھے رہ گئیں،عشق آگے نکل گیا بہت آگے
الفاظ،شعر،جملے اب بھی محو حیرت ہیں اور عشق کہہ رہا ہے”ایسے ہی عشق ہوتا ہے!“
وہ عشق کی گلی میں خوشبو بن کر اتری اور فضا میں محبت کا دھونہ بن کر بکھر گئی
جامعہ کراچی سے جھلسے ہوئے اجسام تو اُٹھا لیے گئے پر اب بھی دیس کی محبت وہیں بکھری ہوئی ہے
اسے دیکھ کر طورِ سینا کا پہاڑ جل رہا ہے اب طور سینا کی مٹی سرمہ بنا کر آنکھوں میں مت لگانا
اب دھرتی کے عشق میں جل جانے والی شاری کی خاک اُٹھانا اور محبت سے آنکھوں میں بھر لینا
وہ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے آس پاس دھرتی پر آزادی پر قربان ہوئی
کنفیوشس ہی کہا کرتا تھا نہ کہ
”سب سے اعلیٰ عشق دھرتی کا عشق ہے!“
مرشد کنفیوشس کے اسی قول کی شاری مثل بنی ہے
جب تک اس کا واسطہ کتابوں کی گلیوں سے تھا وہ دھرتی کی گلیوں سے دور رہی جب اس کا واسطہ عشق کی گلیوں سے ہوا وہ دھرتی کے قریب تر ہوتی گئی اور دھرتی سے محبت میں دھونہ بن کر مل گئی!اب وہ دھونہ اس گلی سے کبھی نہ جائے گا جہاں شاری نے دھرتی کی محبت کی مٹھاس چکھی ہے اور اوپر آکاش محو حیرت ہے کہ یہ کیا ہوا؟ سورج چلتے چلتے ٹھہر سا گیا ہے بھلے سورج ڈھل بھی جائے پر اس گلی سے سورج کبھی نہیں ڈھلے گا جس سورج نے شاری کو پہلے محبت،پھر آگ اور پھر دھونہ ہو تے دیکھا!محبت کی اس گلی سے تارے کبھی نہ بجھیں گے جس گلی سے شاری نے عشق کو حقیقی لباس پہنایا اور محبت با لباس ہوئی اب بھلے پو رے آکاش کے تارے ابھرتی سحر میں ڈوب بھی جائیں اور بادلوں میں چھپ بھی جائیں پر اس گلی سے تارے کیسے ڈوبیں گے جہاں شاری کے وجود سے دھرتی کی محبت کا جنم ہوا اور شاری جان گئی
”اول مٹی
آخر مٹی
مٹی زندہ باد“

اب جب بھی آکاش پر چاند طلوع ہوگا پر اس گلی سے چاند آگے نہ جائے گا جس گلی ایک شاری کھو گئی اور دوسری شاری کا جنم ہوا،بلوچ ماں کی شاری اس گلی میں کھو گئی جس گلی میں اب بھی حیرانگی ہے اور بلوچ دھرتی کی شاری کا اس گلی میں جنم ہوا جو گلی جامعہ کراچی سے چلتی چلتی پورے دیس میں اور پو ری دنیا میں پھیل گئی ہے اور ہر جگہ خوش بو بن کر شاری مہک گئی ہے
شاری!جو پہلے بلوچ دھرتی کی بیٹی تھی
اب بلوچ دھرتی کا لباس بنی ہے
شاری!جو پہلے کتابوں کے بیچ ایک ورق تھی
اب خود ایک کہانی بنی ہے
شاری!جو پہلے ایک نظم تھی
اب وہ دھرتی کا گیت بنی ہے
شاری!جو پہلے دھرتی کا پانچواں موسم تھی
اب محبت کا پہلا موسم بنی ہے
شاری!جو پہلے تھی نہ تھی کہ بیچ میں کہیں تھی
اب بس ہے اور ہے!!
شاری! جو پہلے علم قلم کے درمیاں تھی
اب زبان کے بیچ ہے اور دل درمیاں تھی
شاری!جو پہلے بس بادل جیسی تھی
اب بارش بن کر پو رے دیس پر برس رہی ہے
اور دھرتی بھیگ رہی ہے
اور عشق بھیگ رہا ہے
شاری!جو پہلے بس ایک نام تھا
اب دھرتی کی ہر ہر بیٹی شاری ہے اور برمش ہے
شاری!جو پہلے اک دوپٹہ تھا
اب وہ پرچم بن کر دیس پر لہرا رہی ہے
وہ غلام دھرتی کا آزاد پرچم ہے۔وہ گیت ہے،میت ہے۔وہ اعتماد ہے۔وہ باردو میں خوش بو اور خوش بو میں بارود ہے۔شاری نے آزادی کی جنگ کو نیا ڈھنگ دیا ہے وہ دئیا بن کر جلی ہے اور آنسو بن کر دیس کے گالوں سے بہی ہے،شاری آزادی کا دئیا ہے جو اب جلتا ہی رہے گا اور آزادی کے مسافر اس دئیے کی روشنی میں اپنا سفر تمام کیا کریں گے،نہ دھرتی ایک جیسی ہیں نہ دھرتی کی بیٹیاں ایک جیسی ہیں
وہ بلوچ دھرتی کی بلوچ بیٹی تھی
وہ آزادی کا سنگ میل تھی
اب آزادی کا سفر جب بھی شروع ہوگا
وہی سے ہوگا جہاں شاری!دیس کی محبت میں دھونہ بن کر اس خدا کے پاس پہنچی
جس خدا کے لیے کنفیوشس نے کہا تھا کہ
”خدا ایک ہے،خدا دیکھتا ہے،اسے دیکھنا چاہیے!!!“
اب خدا خود آزادی کی شہزادی کو دیکھ رہا ہے جو خدا کے پاس پہنچی بھی ہے اور دھرتی پر بھی ہے
جو دفن بھی ہوئی ہے اور زمیں پر بھی ہے
جو آکاش پر خدا کے پہلو میں پہنچ بھی گئی
اور دھرتی کی محبت کی گلیوں میں بھی موجود ہے
شاری!یسوع کی بلوچ بہن ہے!
اسے کہاں تلاشو گے؟
وہ کہاں ہے؟
وہ دھرتی کی محبت میں جل کر ہماری دلوں میں آ بیٹھی!
اب شاری کو اپنی دلوں میں تلاشو
وہ محبت،نظم،گیت،ساز آواز
سے بہت آگے نکل گئی ہے
نہ عشق ہاتھ آتا ہے
نہ محبت ہاتھ آتی ہے
اور نہ نظم زباں پہ
شاری کو اب دل کی گلیوں میں دیکھو
اب شاری!کے نام کی صلیب بنالو
اسے گلے میں پہن لو
گوری گردنوں میں
گوری چھاتیوں کے درمیاں
وہ جھولتی رہے
شاری!عشق کی پہلی داستان ہے
دیس سے عشق کی پہلی داستان
وہ بھی یسوع کی بلوچ بہن ہے
وہ زمیں پہ ہے
وہ خدا کے حضور ہے
وہ دھرتی میں عشق کی گلیوں میں ہے
وہ ہمارے دلوں میں ہے
بہت سے کتاب بہت پیچھے رہ گئے
دھرتی سے عشق بہت آگے نکل گیا
چلتے پیر چلے جائیں گے پر اب پرندے وہاں سے کبھی نہ جائیں گے
جہاں دیس کی محبت کا نیا جنم ہوا تھا
جہاں شاری!دھونہ بن کر
دیس
دھرتی
اور دلوں میں بس گئی تھی
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں