خاندانی لوگ
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نسل پرستی، ذات پرستی، طبقات اور مرد شاہی کا غلبہ بنی انسان کی تاریخ کے ہر دور میں اپنی افق پر رہے ہیں اور اب بھی کافی حد تک اسکا غلبہ ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی سے لیکر اور بھی بہت سے اعلیٰ درجے کے مفکر جن کا تعلق انسانی تاریخ بارے تحقیق سے ہیں، کا ماننا ہے کہ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ انسانی آبادی پر ان کی صلاحیتوں پر قبضہ کرکے ایک مخصوص طبقہ اپنے قبضے اور غلامی کو طول دے سکے، اسے کہیں قبائلیت سرداریت رسم و رواج کے نام پر، روایات کے نام پر کہیں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے نام پر اور کسی جگہ جمہوریت کے نام پر اقتدار حاصل کیا جاتا ہے اور اسے برقرار رکھا جاتا ہے۔
سگمنڈ فرائڈ اسے انسانی نفسیات پر غالب ہونے یعنی قبضہ سوچنے کی صلاحیتوں کو ختم کرانے سے گردانتا ہے، بالکل اسی طرح مذہب کا بھی اس سے بڑا گہرا اور منافقانہ تعلق ہے یعنی یہ سب طریقہ کار کہیں نہ کہیں استحصال سے جڑے ہیں، ملا آپ کو یہ کہے گا کہ سب کچھ تقدیرمیں ہے یہ سب استحصال غربت غلامی لوٹ مار کو تقدیر، خدا کے فیصلے کا نام دیتا ہے، بالکل اسی طرح قبائلیت روایات سرداریت کے نام جو جبر شریک جرم اور لوٹ کھسوٹ میں شریک ہوکر اسے قسمت کا لکھا تقدیر کا فیصلہ اور خدا کی مہربانی کہتے ہیں کہ جی خدا نے اس کو عزت دی ہے اس لئے یہ سردار بن گیا ہے مگر اس ظلم کا استحصال کا لوٹ کسھوٹ کا کیا؟ جی تم اس سب کے بارے میں کچھ مت کہو صبر کرو برداشت کرو تحمل سے کام لو، سوال یہ ہیں کہ سردار ہو سرکار یا ملا یہ بات کہاں اور کونسی آیت میں لکھی ہے کہ بلوچ کا استحصال جائز ہے، کہا لکھا ہے کہ گوادر سیندک ریکوڈک سوئی دودر اور بیسار سمیت تمام معادنیات کو لوٹو تعلیمی اداروں کو بند کرواؤ حفیظ بلوچ کو نا کردہ گناہوں کے لئے ہتھکڑی پہناو، سمی دین بلوچ، مہلب بلوچ، ڈاکٹر ماہرنگ، نرگس فیاض، ان کا ننھا سا بچہ روز سڑکوں اور عدالتوں کے چکر لگاتے پھرے اس استحصال بارے نازل شدہ آیات کی کتاب کا کوئی بتا سکتا ہے یہ سب کہاں لکھا ہے؟ اور یہ کہ کوئی غیر آکر یہ سب بلوچ کے ساتھ کرے اور پھر بلوچ یہ ظلم و جبر تقدیر کا لکھا مان کر چھپ رہے، بقول ان کے جی تم اس بارے کچھ مت کہو صبر و برداشت کرو تحمل سے کام لو۔
بالکل اسی طرح مارکس سے لیکر لینن اور مبارک علی تک سب یہ مانتے ہیں کہ یہ اپنے جبر اور اقتدار کو طول دینے کے لئے آپس میں شادیاں کرتے ہیں جسے سیاسی شادی کہا جاتا ہے روایات رسم و رواج جن کے نام پر عام سادہ لوح بلوچوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے خود اپنے ذاتی مقاصد اور مفادات کے لئے باربار ان روایات کو پاؤں تلے روندا جاتا ہے اسی لئے متذکرہ بالا دانشور اسے صرف اور صرف استحصالی حربہ کہتے ہیں اور سردار ملا موسمی سیاستدان اس جبر میں اپنے آقا کے حواری ہوتے ہیں، یہ حربے اپنے ہوں یا غیر صدیوں سےعموماً اور گذشتہ پچتر سالوں سے خاص کر بلوچوں کے خلاف استعمال کئے جارہے ہیں ۔
وقت حالات قحط غلامی استحصال استحصالی نظام تعلیم اور جبر اپنوں کے رویے دھوکے غیروں کی لوٹ کسوٹ انسان کو قوموں کو بہت کچھ سمجھاتے اور انسانی شعور کو جھگا کر رکھ دیتے ہیں اور اس ظلم و جبر کی بدولت معاشرے سماجی تبدیلی کے عمل سے گذرتے ہیں اور یعنی کچھ آج کے بلوچ سماج میں بھی ہو رہا ہے آج بلوچ معاشرہ سماجی تبدیلی کے ایک پختہ اور بہترین عمل سے گزر رہا ہے جسے اب روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے اس لئے آج ہر ظالم جبر اور ان کا حصہ دار حواس باختگی کا شکار ہے، اسی لئے آج سرکار سردار ملا، پرانے زمانے میں کہے جانے والے حواری جسے آج کے دور میں پروکسی کہتے ہیں یہ سب ایک ہی صف پر متحد کھڑے نظر أتے ہیں جو کہ ان کا بھگی کھینچنے کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے مگر اب کی بار اس سماجی تبدیلی اور قومی اجتمائی شعور نے انہیں ننگا اور خوفزدہ کر دیا ہے، ان کا ایک استحصالی عمل بلوچ سماج کو رنگ نسل ذات پات علاقہ زبان اور قبیلہ کے نام پر تقسیم کرو لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی تھی۔ جیسا کہ جی عورت کو تعلیم مت دو گھر کے اندر رکھو مرد ہر دو نمبری کرے پر عورت اس کی عزت ہے اسی لئے عورت حکمرانی نہیں کر سکتی، فلاں کم ذات اور فلاں کم نسل ہے، سردار کے سامنے کیسے بولتا ہے بد تمیز ہے، عورت گھر کی اور مرد کی لونڈی ہے اسے مرد کے سامنے بولنے کا بالکل بھی حق نہیں ہے دراصل یہ تمام حربے قومی استحصال اور جبر کے غلامی کے ضابطے ہیں مگر اب کے بار سماجی تبدیلیوں ( تبدیلی کم ظلم جبر استحصال غلامی) نے بلوچ عورت کو اس کا حقیقی مقام دلایا ہے قوم کے حقیقی فرزندوں کو ذات پات نسل اور نام نہاد رتبے سے نکال کر عمل اور قومی کردار کی بنیاد پر معاشرے میں عزت اور مقام دیا ہے اب بلوچ سماج میں جنس کے نام پر کافی حد تک قرق ختم ہوگیا ہے جو یقیناً بلوچ خواتین کامریڈز اور باشعور مرد سنگتوں کی مرہون منت ہے، اب عزت احترام تعلق اور رشتہ داری کے معیار وہ پرانے دقیانوسی سوچ نہیں رہیں، پہلے رنگ نسل جائیداد سماجی رتبہ جس میں بیورو کریٹانا رتبہ لالچ حرص مال مڈی کو دیکھ کر رشتہ داری کیا جاتا تھا مگر اب معاملہ کچھ مختلف ہے اب رشتہ داری سے پہلے سوچتے اور پوچھتے ہیں کہ نظریہ کیا ہے؟ نظریہ سوچ فکر ملتے ہیں کہ نہیں نظریہ کے نہ ملنے پر بہت سے رشتے ختم ہوگئے ہیں یا ناکامی کا شکار ہوئے ہیں اب پوچھا جاتا ہے قوم پرست ہے کہ نہیں ؟ قومی غدار تو نہیں اب بلوچ عورت لیڈ کرتی ہے جنازوں میں شامل ہوتی ہے جنازہ پڑتی ہے اسی کو تو شانہ بشانہ (ہم کوپہ) کہتے ہیں۔ بلوچ سماج کے اندر یہ تبدیلی مزید بڑھنے اور پختہ ہونے کی جانب گامزن ہے جس کا کریڈٹ شہید کریمہ بلوچ، ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، مہلب بلوچ، چیئرمین صبیحہ بلوچ اور حسیبہ قمبرانی جیسی چینج ایجنٹس کو اور ان کے خاندان والوں کو جاتا ہے کہ جنہوں نے یقیناً قدم قدم پر ان کا ساتھ دیا ہوگا، یہ سب آج کے بلوچ لیڈر اور سماج کے پلرز ہیں اس لئے آج کے بلوچستان کے قومی مسئلے کسی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بحث نہیں ہوتے اور نہ ہی اب معاملہ تین سرداروں کا ہے، قومی یا خاندانی لوگ اب ایک خیال سے مل کر نئ قوم بن چکے ہیں اب جو قومی سوچ سے مسنگ پرسنز کے مسئلے سے قومی جہد سے تعلق رکھتا ہے وہی خاندانی با عزت بااعتبار اور رتبے والا کہلاتا ہے۔۔۔۔ باقی سب تو دوکانداری ہے صاحب۔۔۔۔
قدم قدم بڑھائے جا
خوشی کے گیت گائے جا
یہ زندگی ہے قوم کی
تو قوم پہ لٹائے جا
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں