جیو تو ایسے کہ زندگی کو تم پہ رشک آئے
تحریر: میر جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جیو تو ایسے کہ زندگی کو تم پہ رشک آئے
مرو تو موت پوچھے، کون مرگیا یارو
جیتا ہر جاندار ہے اور ہر جینے والا جاندار مرتا ضرور ہے۔ کچھ جلدی اور کچھ تھوڑی دیر لگا کر، کہنے کا مطلب ہے کچھ زیادہ جی لیتے ہیں مگر انسان کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اپنی موت کو خود چُنتا ہے۔ عزت ذلت کا انتخاب بھی انسان کے اپنے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے۔ کبھی کبھی عزت کمانے کی قیمت زندگی بھی ہوسکتی ہے اور بہادر لوگ موت کو ذلت سے ترجیح دیتے ہیں اور ناصر امام انہی لوگوں میں سے ایک تھا جس نے ذلت پر موت کو ترجیح دی اور اپنے لئے اس موت کو چُنا جو اُسے رہتی دنیا تک زندہ رکھے۔
دو فروری کے دن مغرب کے بعد خبر آئی کہ نوشکی میں پاکستانی فوج کے کیمپ پر بلوچ حریت پسندوں نے حملہ کردیا ہے جو کیمپ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں جہاں ان کی دشمن فوج کے ساتھ شدید لڑائی جاری ہے۔ ابھی یہ خبر سوشل میڈیا پر چل ہی رہی تھی کہ ایک اور خبر نے سب کو حیرت زدہ کردیا کہ پنجگور کے فوجی کیمپ پر بھی اِسی نوعیت کا ایک حملہ ہوا ہے اور اس میں بھی بلوچ وطن کے محافظ سرفروش کیمپ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں جہاں فائرنگ اور دھماکوں کی آواز کی خبریں موصول ہونا شروع ہوگئیں۔ دوسرے روز نوشکی کے حملے کے اہداف حاصل کرنے کے بعد اس آپریشن کے اختتام کا اعلان ہوا مگر پنجگور میں جنگ اگلے روز بھی جاری تھی۔ اس دوران وقفے وقفے سے پنجگور کیمپ کے اندر موجود جانبازوں کی وائس کلپس میڈیا میں شائع ہوتی رہیں جہاں وہ اپنے زندہ ہوکر دشمن کو شکست دینے کی خبریں اپنی قوم تک پہنچاتے رہے۔ ہم باہر رہ کر خبریں پڑھ یا سُن کر یہ سوچھتے رہے کہ جس طرح کی جنگ جاری ہے اُس سے لگتا ہے کہ کوئی چالیس سے پچاس وطن کے عاشق جان نثار تو ہونگے جنہوں نے وطن کی عظمت کے لئے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر دشمن پر کاری ضربیں لگانے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ دشمن فوج نے پنجگور میں انٹرنیٹ بند کردیا تھا مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح سے خبریں سوشل میڈیا پر پہنچ رہی تھی جہاں ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پنجگور کی فضاء میں دشمن کے کئی ہیلی کاپٹر اور ڈرون گشت کررہے ہیں اور فائرنگ اور دھماکوں کی مسلسل آوازیں آرہی ہیں۔ دشمن کے ہیلی کاپٹر مجبور ہیں کہ اپنے ہی کیمپ پر بمباری کریں لیکن مضبوط ایمان، بہادری اور بلند حوصلوں کے سامنے یہ بمباری بھی پھیکی ہی نظر آرہی تھی۔ یہ سلسلہ چار دن تک رہا اور آخر میں پنجگور کی فضاء میں شہید ہونے والے بلوچ قوم کے جانبازوں کے لہو کی خوشبو سے معطر ہوگئی اور ہرسو ایک خوشبو پھیل گئی۔ خبر آئی کہ سات جانثاروں نے دشمن پر چار دن تک قہر برسایا جن میں ایک ناصر امام بھی تھا۔ یقیناً یہ ایک باعث افتخار لمحہ تھا کہ وطن دیوانے، دیوانگی کی اس حد تک پہنچے ہیں انہوں نے اپنی موت کا انتخاب بھی اس انداز میں کیا کہ پوری دنیا میں ان کی بہادری کے چرچے ہونے لگے۔
ان چار دنوں کی دشمن کے “محفوظ ٹھکانوں” کے اندر ٹھکانہ کرکے دشمن کو ٹھکانے لگانے کا جو کارنامہ سرانجام دیا گیا وہ یقیناً اپنے آپ میں بہادری کی ایک ایسی مثال ہے جو تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سنہرے الفاظ میں لکھا رہے گا۔ جنگ کے دوران ہی زبان زد عام تھا کہ اس طرح کی جنگ ہم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی جہاں دشمن کی ہزاروں کی تعداد میں تربیت یافتہ نفری، جدید سازوسامان، بکتر بند گاڑیاں یہاں تک کہ فضائی مدد بھی ناکارہ ثابت ہوئی اور ان سب سے غیرت، حوصلہ اور بہادری جیت گئی۔ دشمن اتنا مجبور و لاچار ہوا کہ اپنے ہی کیمپ پر بمباری کی تاکہ اپنے کیمپ پر چار دن سے قابض ان چار وطن پرستوں کو شہید کرکے اپنے کیمپ پر سے ان کا قبضہ چُھڑا سکے۔ ناصر جان اور دوستوں کی جواں مردی نے پوری دنیا میں پاکستانی فوج کو رُسوا کیا اور اپنی قوم کا نہ صرف سر فخر سے بلند کیا بلکہ اپنی قوم کو وہ حوصلہ دیا جس کو دشمن پچھلے بیس سال سے تھوڑنے کی کوشش کررہا ہے مگر اس کو تھوڑنے میں اب تک مکمل طور پر ناکام ہے کیونکہ ناصر جان اور دیگر دوستوں کا لہو اس چراغ کو مسلسل ایندھن فراہم کررہا ہے تاکہ یہ جلتا رہے اور روشنی بکھیرتا رہے۔
ناصر امام 1997 میں پنجگور کے علاقے پروم میں پیدا ہوئے۔ بہادری اور قومی غیرت ان کو ورثے میں ملی، جیسے کہ ان کے والد، دادا اور بڑے بھائی نے اپنے کردار سے ثابت کیا ہے۔ ناصر اب تک ایک سال کے ہی ہوئے تھے کہ والد کا شفیق سایہ ان کے سر سے چھن گیا۔ وہ ابھی دو سال کے ہی ہوئے تھے کہ بلوچستان کی آزادی کی بحالی کے لئے غیرت مند بلوچ فرزندوں نے دشمن کو للکار کر اپنی سرزمین کی آزادی کی جدوجہد شروع کردی تھی۔ نہ دشمن کے وہم و گُمان میں تھا اور نہ ہی شائد ہم میں سے کسی نے یہ توقع کی تھی کہ یہ جنگ اس تیزی سے اس طرح منظم انداز میں آگے بڑھے گا کہ اتنی کم مدت میں نہ صرف پورا بلوچستان اس کی لپیٹ میں آئے گا بلکہ اس جنگ میں ایسا فیصلہ کُن مرحلہ بھی آئے گا کہ موت کا چُناؤ بھی نوجوان اپنے ہاتھ سے کریں گے۔ ویسے تو بلوچستان کی آزادی کے کا رواں میں شامل ہونا اپنے آپ میں اپنی موت کا چُناؤ ہے لیکن مسلح مزاحمت کا حصہ بننا تو اس کو مزید فیصلہ کُن بناتا ہے، اب اس سے ایک قدم آگے وطن مادر کے عشق کی حد کو ایک نئی روش دیکر سربکف ہوکر دشمن کو للکارنے اس کے گھر میں گُھسنا اس عظیم چناؤ کو مزید عظمت بخشتا ہے۔ ناصر امام ان غیرت مند بہادر فرزندوں میں سے ایک بنا جنہوں نے عشق کی منزل پالی ہے۔
ناصر امام چونکہ ایک ایسے خاندان میں پرورش پارہے تھے جہاں مزاحمت کو انہوں نے بچپن میں ہی دیکھا اور اس مزاحمت نے نہ صرف ناصر امام کی پرورش کی بلکہ ناصر امام کو پختہ کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ ناصر کے بڑے بھائی گُلزار امام 2008 سے ہی قومی مزاحمت کے ساتھی تھے جس وقت ناصر جان کی عمر محض گیارہ سال تھی۔ ناصر اسی چھوٹی عمر میں ہی اپنے بڑے بھائی اور اس سفر میں ان کے دیگر ساتھیوں کے لئے فکر مند تھے کبھی ان کے قریبی ٹھکانوں پر کھانا پہنچاتے تھے تو کبھی دشمن فوج کی نقل حرکت کی خبر ان کو دیتے تھے تاکہ وہ محفوظ رہ کر وطن کی حفاظت کرتے رہیں۔ جب 2012 میں دشمن فوج نے آزادی کی جنگ کو دہشت و وحشت سے کاؤنٹر کرنے کا فیصلہ تو اس دوران جہد کاروں کے گھر جلائے گئے۔ ان کے خاندانوں کو نہ صرف تکلیف و نُقصان دیتے رہے بلکہ ان کو علاقہ بدر کرنے کا اہتمام بھی کرلیا، یہ سب ناصر جان نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہمارے جیسے بزدل لوگ ایسے حالات دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں لیکن ناصر جان کے لئے یہ سب ایک تربیتی مرحلہ تھا۔ اس دوران ناصر کا گھر بھی دشمن کے آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آکر راکھ میں بدل گیا۔ ان کے بڑے بھائی کو کمزور اور بلیک میل کرنے کے لئے 2015 میں ان کے چچا رحیم بخش کو بھی شہید کیا گیا۔ والد کے بعد ناصر کے چچا ہی ناصر کے والد تھے، ان کی شہادت بھی ناصر کی پُختگی کی وجہ بنی اور وہ مزید پختہ ہوئے۔ پھر ان کے بڑے بھائی ظریف کو اغواء کرکے لاپتہ کیا گیا مگر ناصر کے حوصلے پست ہونے کے بجائے مزید محکم ہوئے اور بلآخر 2018 میں مسلح مزاحمت کا فیصلہ کیا۔
ناصر سوشل میڈیا پر بھی خاصے سرگرم رہے اور ایک چیز جو سب سے زیادہ محسوس کی جاسکتی تھی کہ وہ سب سے زیادہ اپنی ماؤں بہنوں کی تکلیف میں تکلیف محسوس کرتے تھے جن کے بچے قابض فوج نے اٹھا کر غائب کئے ہیں۔ وہ ہمیشہ لکھتے تھے کہ ہماری ماؤں بہنوں کے آنسوؤں کا حساب ہوگا۔ ان کی تحریروں کو دیکھ کر ہم سمجھتے تھے کہ یہ کلمات بس روایتی ہیں مگر ہمیں کیا پتہ تھا کہ ناصر جان نے ان آنسوؤں کا حساب خود لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ انہوں نے اپنی بندوق سے وہ تمام حساب لیا جو دشمن پر قرض تھا اور اپنے اوپر وطن کا قرض اپنی جان دیکر بھی چُکا دیا۔ یوں ایک زندگی کا باب تو بند ہوا لیکن تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا کہ دنیا میں ایک موت ایسی بھی ہے جس کو چُنتے آپ خود ہو مگر وہ موت پھر بھی آپ کو زندہ کھتی ہے۔ ناصر جان نے اپنی زندگی ایک ایسے مقصد پر قربان کردی جو پوری قوم کے لئے ایک سبق کی حیثیت اختیار کرگئی جو ثابت کرتی ہے کہ زندگی کا خاتمہ موت کی صورت میں نہیں بلکہ زندگی کا خاتمہ بے عملی میں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں