جرمنی : بی این ایم کا شہداء مرگاپ کی مناسب سے مظاہرہ

626

جرمنی کے شہر کمینٹس میں ہفتے کے روز بلوچ نیشنل موومنٹ جرمنی زون کے زیر اہتمام شہداء مرگاپ کی سالگرہ کے موقع پر جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا –

احتجاجی مظاہرے میں بی این ایم کے کارکنوں کے علاوہ بی آر پی کے کارکن بھی شریک تھے –

ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصویریں اور پلے کارڈز اٹھا رکھے ہوئے کارکنوں نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، فوجی آپریشنز کے خلاف نعرہ بازی کی –

اس موقع پر بی این ایم جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شہداء مرگاپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن بلوچ قوم کے لیے ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے-

انہوں نے کہا کہ 2009 کو آج ہی کے دن بلوچ قوم کے عظیم رہنماء واجہ غلام محمد ، لالا منیر اور شیر محمد کو بلوچ قومی جدوجہد کی پاداش میں جبری گمشدگی کا شکار بنا کر شہید کیا گیا –

حمل بلوچ کا کہنا تھا کہ شہداء مرگاپ نے اپنے خون سے زمین کی آبیاری کی اور آج 13 سال گذرنے کہ باوجود وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں –

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے انہیں جسمانی طور پر ہم سے جدا کردیا مگر انکی تعیلمات اور فلسفہ سیاست بلوچ قوم کی رہنمائی کر رہے ہیں – یہ انہی شہدا کی تعیلمات اور قربانیوں کی بدولت ہے کہ آج نہ صرف بلوچستان میں بلکیں پوری دنیا میں جہاں کہیں بلوچ آباد ہیں اس نظریے اور فلسفہ پر عمل پیرا ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا ایمان ہے کہ شہید غلام محمد اور اسکے ساتھیوں کی قربانی بلوچستان کی آزادی کی صورت میں بلوچ قوم کو نصیب ہوگا –

مظاہرے سے بی این ایم جرمنی زون کے جنرل سیکرٹری اصغر علی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غلام محمد اور انکے ساتھیوں نے قومی آزادی کی بحالی کے لیے بلوچ قوم میں شعور بیدار کیا اور اسی کے پاداش میں پاکستان نے غلام محمد، لالا منیر، شیر محمد کو لاپتہ کرکے انکی لاشیں مسخ کیے –

انہوں نے کہا کہ پاکستانی آرمی اور انکے خفیہ ایجنسیوں نے دن کی روشنی میں انہیں معروف وکیل کچکول علی کے لاء چمبر سے اغواء کرکے بلوچ قوم کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی – پاکستان کی اس طرح کا رویہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ بلوچستان کو پاکستان طاقت کے زور پر اپنا کالونی بنانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر وہ آواز جو بلوچ کوقوم کی حقوق کیلئے اٹھائی جاتی ہے اسے طاقت سے دبانے کی کوشش کی گئی ہے – بلوچستان کی آزادی کیلئے جمہوری اور سیاسی جدوجہد کو پاکستان دبانے میں ناکام ہوچکا ہے –

اصغر علی نے مزید کہا کہ 2021 میں پاکستان نے 450 سے زیادہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا ہے ۔ اور رواں سال فروری کے مہینے میں صرف ایک دن میں 50 سے زیادہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ اور یہ عمل سالوں سے جاری اور ساری ہے، ڈاکٹر دین محمد بلوچ، رمضان بلوچ چیئرمین زاہد بلوچ، شبیر بلوچ سمیت سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو سالوں سے ٹارچر سیلز میں رکھا گیا ہے –

انکا کہنا تھا کہ پاکستان بلوچوں کو نہ صرف بلوچستان میں بلکہ اب بیرون ممالک میں بھی جبری گمشدگی کا شکار بنوا رہا ہے ۔ اسکی واضح مثال راشد حسین اور حفیظ بلوچ ہیں جنہیں متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں پاکستان کے حوالے کیا گیا –

اس موقع پر بلوچ رپیلکن پارٹی کے رہنماء عبدالمجید بلوچ نے کہا کہ پاکستان بلوچستان میں بندوق کے زور پر لوگوں کی زبان بندی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرچکا ہے –

انہوں نے کہا کہ مہذب اقوام بلوچستان میں پاکستانی مظالم پر لب کشائی کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ سیاسی کارکنوں کی بحفاظت بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں –

مظاہرین سے سعید بلوچ، بانک فاطمہ اور بانک بختاور بلوچ جرمن زبان میں خطاب کرتے ہوئے بلوچستان میں پاکستانی جبر اور گمشدگیوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دی ۔

اس موقع پر جرمن اور انگلش زبان میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا جس میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور دیگر ریاستی جبر کے خلاف تفصیلات شامل تھے –

مظاہرہ کے دوران ایک پاکستانی شخص نے مداخلت کرتے ہوئے بی این ایم کے ورکر سعید بلوچ کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جس کو جرمن پولیس نے قابو کرتے ہوئے اپنے تحویل میں لے کر تفتیش کیا