جبری گمشدہ افراد کے لواحقین انصاف کے منتظر ہیں – سمی بلوچ

799

لاپتہ بلوچ رہنماء ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی بلوچ نے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے –

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر انہوں نے پاکستان کے نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف اور حکمران جماعت کے نائب صدر مریم نواز کو اپنے ایک ٹویٹ میں متوجہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وزیر اعظم گمشدہ افراد کی غمزدہ مائیں اور بیٹیاں انصاف کیلئے ابھی تک منتظر ہیں-

سمی بلوچ نے لکھا ہے کہ ہم امیدکرتے ہیں اس حکومت میں سب سےپہلے قانون اور انصاف کو عمل میں لایا جائیگا، مزید ان خاندانوں کو انصاف کی حصول کیلئے سڑکوں اور عدالتوں میں در بہ در و خوار نہیں ہونا پڑیگا۔

یاد رہے کہ گذشتہ سال پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ایک دھرنا دیا گیا – اس وقت مریم نواز شریف دھرنے میں تشریف لائے اور انہوں نے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور انکی پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا –

رواں مہینے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہونے والے تحریک انصاف کی حکومت کو ن لیگ کی جانب سے لاپتہ افراد کے عدم بازیابی پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے -تاہم لواحقین اب اس انتظار میں ہے کہ نئی آنے والی حکومت ان کے پیاروں کی بازیابی کے لیے کامیاب ہوگی یا سابقہ حکومتوں کی طرح صرف دوران اپوزیشن لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتا رہے گا –

دریں اثناء تاج محمد سرپرہ کے جبری گمشدگی کو بائیس مہنے مکمل ہونے پر سماجی رابطوں کی سائٹ پر کمپئین کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاج محمد سرپرہ کی بیوی نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18 اپریل کو تاج محمد سرپرہ کے عدم بازیابی کیخلاف #ReleaseTajMuhammadSarparah کے ہیش ٹیگ کیساتھ کمپئین چلائی جائے گی۔

جبکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 4642 دن مکمل ہوگئے جہاں سیاسی سماجی کارکن شاہ محمد بلوچ، نذیر احمد بلوچ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-

کیمپ آئے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان پر تسلط برقرار رکھنے کی اپنی عدم دلیل کے باعث پاکستان کے حکمران دہشت پھیلانے والے ریاستی پالیسی پر گامزن ہے جس کا مظاہرہ براہِ راست فوجی کارروائیوں کے علاوہ سیاسی کارکنان طلباء بے گناہ نوجوانوں اور انسانی حقوق کے کارکنان سمیت بلوچ سماجی کے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ریاستی جبر کے اداروں کے زریعے اٹھاۓ جانے میں دیکھا جاسکتا ہے اور انہیں ریاستی تحویل میں سفاکانہ تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کیا جاتا رہا ہے-