ایک میٹھی نیند ۔ نوشاد بلوچ

730

ایک میٹھی نیند

تحریر: نوشاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

چار سال بعد جب اس نے مجھے دیکھا تو میرے طرف دوڑے چلے آنے لگی میں بھی اپنے پاوں روک نہ سکا اور اس کے طرف اپنے قدم بڑھانے لگا۔ جیسے ہی مجھ تک پہنچی تو مجھے گلے سے لگا کر خوب رونے لگی؛ کہاں گئے تھے تم، کہاں کہاں تمہیں نہیں ڈھونڈا میں نے، میں تو ہر راہ گذر ملنگ فقیر سے تیرا ہی پتا پوچھتی رہی، میں تو مسجد مندر مزاروں تک چلی گئی تجھے ڈھونڈنے، پھر میرے کاندھے پر سر رکھ کے کہنے لگی بڑے بیوفا ہو تم، کہاں چلے گئے تھے وہ ایسی کونسی جگہ تھی جہاں میری یاد بھی نہیں آئی تمہیں۔ پھر معصومانہ انداز میں بچوں کی طرح اپنا چہرہ بگاڑ کر کہنے لگی میں تم سے بات نہیں کرونگی دور رہو مجھ سے آج کے بعد میں تم سے ناراض ہوں۔

میں اسے بتانے ہی والا تھا کہ اس پہلے وہ میٹھی نیند پوری ہوگئی اور میرے آنکھ کھل گئی۔ جس چادر سے میں نے اپنے بدن کو اوڑ رکھا تھا اب وہ صرف میرے چہرے تک ہی محدود تھا اور میرے پاؤں سرد پڑ رہے تھے۔ میرے بندوق کا بیرل اب تک کسی محبوبہ کی طرح میرے گالوں کو چو رہا تھا۔ جس پتھر کے اوپر میں نے سر رکھا تھا زیادہ اونچا ہونے کی وجہ سے اب میرے گردن میں بھی درد ہونے لگا تھا اور پیاس کی وجہ سے میرا گلا خشک ہو چُکا تھا۔

دائیں طرف لٹکے ہوئے پانی کے بوتل کو جب میں نے ہلایا تو وہ بھی خشک ہوچکا تھا شاید رات 12 بجے کے وقت جو ساتھی میرے ساتھ بیٹا ہوا تھا اس نے پی لیا ہو۔ اس وقت صبح کے چار بج رہے تھے میں اٹھ کر اپنے بندوق کو کاندھے میں لٹکاکر اپنے چوٹ یعنی جوتے کے بند باندھنے لگا اس کے بعد اپنے روزانہ کا ضروری سامان اٹھایا اور اپنے خالی بوتل کو ہاتھ میں لئے روانہ ہوا تھوڑی دور کے فاصلے پر ایک پانی کا چھوٹا سا چکل تھا جہاں سے میں اپنے بوتل میں پانی بھر سکتا تھا، میں وہاں سے پانی بھر کر آگے اپنے سفر کے لیے روانہ ہوا جہاں مجھے کسی دوست کے پاس پہنچنا تھا جو وہاں پوری رات بیٹھ کر پہرہ دے رہا تھا۔

اب میں اس خواب کے بارے میں سوچھنے لگا
میں سوچتا رہا کہ اب مجھے اس طرح کے خواب کیوں آنے لگے ہیں
کیا میں کمزور ہونے لگا ہوں
کیا میں تھک چکا ہوں
کیا میں مزید چل نہیں سکتا
کیا اب بھی کوئی میرے انتظار میں رایں تک رہی ہے
کیا مجھے اس کے پاس چلے جانا چاہیے
کیا وہ اب بھی میرے منتظر ہے
طرح طرح کے سوالات اب میرے ذہن میں آنے لگے تھے

پھر میں اس کے بارے میں سوچھنے لگا من ہی من میں اس کے بارے باتیں کرتا رہا کہ میں تو اسے چار سال پہلے سب کچھ بتا کر نکلا تھا پوری ایک رات ہم ساتھ بیٹھے رہیں اور میں اسے سمجھاتا رہا اور وہ مان بھی گئی تھی کہ اب ہم دونوں کے راستے الگ ہیں، میں اب ان شہروں سے ہمیشہ کے لئے بہت دور نکل رہا ہوں جن سے کبھی کچھ دنوں کے لیے نکلنا بھی گوارہ نہیں ہوتا تھا

ویسے تو آج بھی میرے دل میں ان کے لیے اتنی ہی محبت ہے جتنا پہلی بار کی ملاقات میں تھی۔

آج بھی کہی اکیلے میں بیٹھ جاتا ہوں تو انکے ساتھ گذارے ہر پل کو یاد کرتا ہوں۔ آج بھی مجھے ان کی اس مسکان سے اتنا ہی پیار ہے جتنا پہلے تھا۔
وہ تو مجھ سے کہا کرتی تھی میں ہر وقت تمہارے انتظار میں رہوں گی میں تم پر کبھی بھی کسی قسم کی دباؤ نہیں ڈالونگی جس کی وجہ سے تم اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ سکو۔ میں تو ہر وقت تمہاری دلہن بنے بیٹھی رہونگی۔
بس تم مجھ سے ایک وعدہ کرو جس مقصد کے لیے تم مجھے چھوڑ کر جا رہے ہو وہ مقصد پوری طرح سے حاصل کرکے لوٹ آوگے۔ جب یہ گلزمین آزاد ہوگا ان جابر ریاست سے جب سارے جانباز سپاہی ان خوبصورت پہاڑوں کے زینت بنے ہوئے اُتر رہے ہونگے تو میں خود تمہارے استقبال کے لئے کھڑی رہونگی۔
اگر تم کہی اس جدوجہد میں شہید ہوتے ہو تو میں سر فخر سے بُلند کرونگی۔ جب تمہاری لاش خون سے لُت پُت اس گاؤں میں پہنچے گی تو میں تمہیں ایک دُلہے کی طرح سجا کر الوداع کرونگی۔
یاد رہے میں تمہیں ہرگز معاف نہیں کرونگی اس وقت جب تم کسی بُزدل کی طرح اپنے ہتھیار دُشمن کے پیروں میں رکھ کر شرم سے سر جھکائے لوٹوگے۔ پھر اس وقت تم میرے لیے محض ایک بوجھ بن کر رہوگے اور کچھ نہیں۔
اب صبح کی روشی بالکل ظاہر ہوگئی تھی
سورج کی تپش اپنے گرمی کو آہستہ آہستہ برسا رہی تھی
میں بھی کافی تھک چُکا تھا بس کوشش تھی کہ جلدی اپنی منزل پر پہنچ جاوں تو اپنے لیے چائے کا بندوست کروں پھر میں اپنے قدم تیزی سے بڑھانے لگا۔
اب میں اپنے منزل کو پہنچنے لگا تھا جیسے ہی میں قریب پہنچا تو اس ساتھی نے مجھے آواز دی اور کہنے لگا سنگت آپ نے پانی کا بوتل ساتھ لیا ہے کہ نہیں، میں نے آج پانی تھوڑا کم لیا تھا وہ جلدی ختم ہوئے پوری رات میں پیاسہ رہا۔
میں تھوڑا دور تھا تو ہاں کے صورت میں اپنا سر ہلایا اور اس سنگت کے طرف اپنے قدم بڑھانے لگا۔
میں وہاں پہنچا اور اپنے بندوق کو پتھر کا سہارا دیکر اپنے چِنتہ کو کاندھوں سے اتار نے لگا اسی دوران سنگت کہنے لگا سنگت اپنا چادر بندوق کے اوپر ڈال دو سورج کے کرنوں کی وجہ سے بندوق کا بیرل شعائیں مارنے لگتا ہے جو کسی بھی جگہ سے بالکل ظاہر ہوتا ہے۔
میں مسکرا کر اپنے چادر کو بندوق کے اوپر ڈال کر کہنے لگا یار آج میں بالکل تھکا ہوا ہوں نہ جانے آج یہ راستہ لمبا پڑگیا یا مجھ میں چلنے کی طاقت نہیں رہی۔
سنگت قہہقہ مار کر کہنے لگا کس طرح کی باتیں کرتے ہو یار، روز اسی راستے سے آتے ہو آج کیسے لمبا پڑگیا، نہ یہ راستہ لمبا پڑگیا ہے نہ میرا دوست چلنے کی طاقت کھو رہا ہے۔ آج بھی تم ان بلند پہاڑوں میں ایسے چلتے ہو جیسے گڈ، جیسے پہاڑی بکری ان تلاروں میں چلانگے مارتا کھیلتا ہے۔
اب تم نے تھکن کی بات کی ہے تو روکو میں آپ کے لیے چائے بناتا ہو
میں نے جواباً کہا یار آپ نے تو میرے دل کی بات کی ہے منتوار رہوں گا آپ کا
نہیں یار اس میں منتوار کہنے کی کوئی بات نہیں
بس بات یہ ہے کہ میری چائے پینے کے بعد تعریف نہیں کرنا میرا
مجھے پتا ہے آپ کی تعریف مہنگی پڑنے والی ہے مجھے
میں: ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ ڈرو مت میں تمہیں روز چائے بنانے کا نہیں بولونگا
نہیں سنگت میں تو مذاق کر رہا تھا بھلا کسی دوست کے لئے چائے بنانا کونسا مشکل کام ہے۔ اچھا پاس رکھے بستے میں شاپر کے اندر روٹی رکھی ہوئی ہے وہ بھی مجھے دو گرم کرتا ہوں، چائے پی کر میں سنگت سے کہنے لگا یار تم تو بڑے اچھے چائے بناتے ہو تمہیں تو ہوٹل کھول لینا چاہیے تھا۔
سنگت مذاقاً کہنے لگا یار میں بھی یہی سوچ رہا تھا لیکن کیا کریں اس ریاست نے ہمارے قوم و زمین کے اوپر بہت سے ظلم ڈھائے ان سب کا حساب بھی تو لینا ہے۔ اس وطن کے دفاع میں کتنے ساتھیوں نے قربانی دی ہے، کتنے ماؤں کے لال شہید ہوئے ہیں، کتنے ساتھیوں کا ساتھ چھوٹا ہے۔ ہم سے اب تو زندگی کا ایک ہی مقصد رہا ہے یا تو اپنے وطن کو آزاد کرالیں گے یا تو پھر ایک ایسا تاریخ رقم کرکے دم لینگے جن سے ہماری آنے والی نسلیں بھی اس مزاحمت کو اپنا فرض سمجھ لیں اب تو ساتھیوں کے شہادتوں نے ہمیں اتنا مظبوط کیا ہے اس کا اندازہ دشمن اچھی طرح لگا سکتا ہے کہ ہماری جنگ کس شدت سے آگے بڑھ رہی ہے۔ پہلے ہم ٹارگٹ کلنگ یا دشمن کا راستہ روکھ کر اس پر اپنا زرب لگاتے تھے اب بظاہر دشمن کے کیمپوں میں گھس کر آزاد بلوچستان کا نعرہ بلند کر رہے ہیں، دشمن کے مورچوں کو جلا کر تہس نہس کر رہے ہیں اور انکا سارا ساز و سامان ضبط کرکے انکے مورچوں کو آگ لگا رہے ہیں۔ پہلے ہم دشمن کے چوکیوں اور ان کے ٹھکانوں پر دستی بم پھینکا کرتے تھے اب ہم بظاہر ان پر فدائی حملے کر رہے ہیں، 70 گھنٹے ہمارے ساتھی ان کے کیمپوں پر قبضہ جمائے اپنے آخری گولی کا انتظار کرتے ہیں اور دشمن کو اتنا مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہی کیمپوں کو بمباری اور جہازوں سے شیلنگ کرکے تباہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے، ویسے بھی یہ ریاست ہمیں ایک جگہ بیٹھنے تھوڑی دیتا ہے۔ ہاں یار آپ صحیح کہہ رہے ہو لیکن ہم بھی تو اسے کہی کا نہیں چھوڑ رہے بس انشاللہ ایک دن ہم اپنے وطن کو آزاد کرا لینگے اور پھر تم اپنا ہوٹل کھول لینا اور میں اپنے گاؤں کو لوٹ جاؤنگا جہاں کی گلیوں میں نہ جانے کون کون سے ارمان کون کون سے خواہشات دفن کرکے آیا ہوں لیکن آپ کے ہاتھوں کی چائے میں ضرور پینے آیا کرونگا۔
سنگت؛ ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ ضرور میں ہر وقت آپ کا منتظر رہونگا۔
پھر وہ سنگت رخصت ہوکر دوبارہ کیمپ کیجانب چلنے لگا اور میں اسکی جگہ بیٹھ کر اپنی ڈیوٹی انجام دینے لگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں