ایف سی بلوچوں کا دشمن ہے، نکالا جائے – تربت دھرنا

604

بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں جمعہ کے روز حق دو تحریک کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں ڈپٹی کمشنرکیچ کی آفس کے سامنے غیر معینہ مدت کے لیے دھرنا شروع کر دی گئی ہے –

دھرنے کے ابتدائی مرحلے میں ڈپٹی کمشنر کی آمد اور منتظمین کے ساتھ مزاکرات کیے جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوا-

حق دو تحریک کی جانب سے 7 نکات پر مبنی مطالبات پیش کیے گئے ہیں جن میں ایران سے متصل تمام سرحدی گزرگاہوں کو کھولنا جن میں دشتک سنگاوان، جالگی زامران، گربن کوردپ، چکاپ مند، دشت کپکپار، پوائنٹ شامل ہیں جبکہ ایف سی کی مداخلت کو روکنا، سی ٹی ڈی کے ذریعے نوجوانوں کولاپتہ کرکے جھوٹے مقدمات قائم کرنے کاسلسلہ بند کرنا اور سرحد سے اشیاء خوردونوش، ڈرائیور کیساتھ ایک کلینر کا اجازت سمیت تعلیمی اداروں، مساجد اور پارک سمیت آبادیوں کےقرب وجوار میں واقع چیک پوسٹوں کاخاتمہ کرنا، سرحدوں کے دونوں جانب واقع لوگوں کو غم و خوشی کے موقع پر آنے جانے کی اجازت دینا شامل ہیں-

ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ نے اسسٹنٹ کمشنر تربت عقیل کریم اور اے ڈی سی تابش کے ہمراہ دھرنا گاہ آکر مزاکرات کیے تاہم حق دو تحریک نے ڈپٹی کمشنر کیچ کو اپنے مطالبات منظور ہونے تک دھرنا ختم نہ کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا اور واضح کیا کہ جب تک عملی طور پر مطالبات پوری نہیں کیے جائیں گے دھرنا جاری رہے گا-

اس موقع پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کہا کہ ایف سی بلوچستان میں بلوچوں کا سب سے بڑا دشمن ہے، ایف سی کے انخلا کے لیے عید کے بعد ملین مارچ کا آغاز کریں گے، ایف سی سے بلوچوں کی جان و مال عزت و آبرو اور تشخص کو خطرہ ہے-

انکا کہنا تھا کہ ہماری سیکیورٹی کے نام پر اس فورس کی سیکیورٹی خود لیویز اور پولیس کررہی ہے جو شرم کا مقام ہے-

انہوں نے کہاکہ مرض کی تشخیص علاج سے قبل ضروری ہے، چھ مہینوں سے تحریک چلارہے ہیں وزیراعظم نے ایکشن لیا، چیف سیکرٹری اور وزراء نے اجلاس پہ اجلاس کیے مگر کچھ ندارد، مرض مکران سے منتخب نمائندے ہیں، بارڈر اور ساحل پر بھتہ خوری بند ہونے سے ان کے گھر کا دانہ پانی بند ہوتا ہے، گوادر کے وزیر نے روزانہ ایک کائیک سے 12 ہزار روپے بھتہ لیا اور روزانہ 5 سو کائیک جاتے ہیں، گوادر سے پنجگور تک تمام نمائندے ایف سی کے دلال ہیں، پنجگور کا نمائندہ تہذیب اور اخلاق سے عاری ہے، پنجگور میں صحت کی صورت حال ابتر ہے، ایک مہینے کے دوران کبھی جام کمال تو کبھی قدوس بزنجو فرشتہ بن جاتے ہیں، نام نہاد عوامی نمائندے بلوچ قوم کے دشمن ہیں ان کا بائیکاٹ کیا جائے اور ہر علاقے میں عوام ان کے خلاف مہم چلائیں کیوں کہ لینڈ مافیا، منشیات فروش، ٹرالر مافیا اور بارڈر مافیا یہی نمائندے ہیں، وزراء کے فارم ہاؤس کے لیے غریبوں کی زمینوں پر قبضہ جمایا جارہا ہے-

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کا ہر بلوچ ایف سی کو اپنا دشمن سمجھتا ہے، ایران سے اگر آتے ہوئے کسی کے پاس ایک کلو گھی ہے بھی تو اسے روکا جاتا ہے اگر ایک کلو گھی چھوڑ دے تو کیا پاکستان ٹوٹ جائے گا، ایف سی کا مائینڈ سیٹ یہ ہے کہ بلوچ خوش حال نہ ہوں، ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ ہو، ایف سی کو بلوچستان سے نکالنا ضروری ہے، کہتے ہیں کہ ایف سی ہماری سیکیورٹی کے لیے ہے مگر شرم کا مقام ہے کہ ایف سی کی حفاظت لیویز اور پولیس کررہے ہیں-

انہوں نے کہا کہ ایف سی نے ہماری سڑکیں بند کی ہیں، اسکولوں اور ہسپتالوں پر وکیاں بنائی ہیں، بلوچستان میں بلوچوں کو کسی سے کوئی تھریٹ نہیں اگر ایف سی کو تھریٹ ہے تو بلوچستان چھوڑ دے، روڈ اور سڑکیں سیکیورٹی کے نام پر بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، عجب مذاق ہے کہ پاکستان کو ایرانی آٹے اور گھی سے خطرہ ہے، مگر کریسٹار، شیشہ، تریاق اور منشیات سرعام گزرتے ہیں ملکی ادارے اگر بلوچستان کو پاکستان کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں تو ایف سی کو بلوچستان سے نکال دیا جائے ان کی موجودگی میں بلوچستان پاکستان سے علیحدہ ہوسکتا ہے-

انہوں نے کہا کہ دو دن ڈپٹی کمشنر کیچ کی آفس کے سامنے دھرنا کے بعد دھرنا کا مقام تبدیل کریں گے اور ایف سی کی گیٹ کے سامنے بھی دھرنا دے سکتے ہیں۔

دھرنے میں جبری گمشدگیوں کے شکار لاپتہ افراد کی لواحقین نے بھی شرکت کی، رات گئے تک دھرنا جاری ہے –