اگرچہ ایران میں 40 برس تک ممانعت کے بعد حکام نے ایرانی خواتین کو فٹبال میچوں میں بطور تماشائی حاضری کی اجازت دے دی ہے تاہم اس سلسلے میں انہیں ابھی تک تنگی اور دشواریوں کا سامنا ہے۔ فٹبال کی بین الاقوامی تنظیم فیفا بارہا اس حوالے سے ایرانی حکام کو تنبیہ کر چکی ہے۔
تازہ ترین واقعے میں “مذہبی شدت پسندوں” کے ایک گروپ نے ورلڈکپ 2022 کے کوالیفائنگ راؤنڈ کے سلسلے میں ایران اور لبنان کے درمیان میچ میں خواتین کو کھیل کے میدان میں داخل ہونے سے روک دیا۔
اس واقعے پر ایرانی فٹبال فیڈریشن کے ذمے داران کو تشویش لاحق ہو گئی۔ فیڈریشن کے ایک سینئر عہدے دار نے ٹویٹ میں بتایا کہ “یہ واقعہ مشہد شہر میں پیش آیا۔ مزید یہ کہ اس حوالے سے فیفا اور ایشیائی فیڈریشن کی جانب سے باعث تشویش خبریں سننے میں آ رہی ہیں۔ اگر کسی قسم کی پابندی عائد کی گئی تو اس کے ذمے دار واقعے میں ملوث افراد ہوں گے”۔
ایران میں 1979ء میں اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین پر فٹبال میچوں میں بطور تماشائی حاضری پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اسی طرح مردوں کا خواتین کے فٹبال میچوں میں بطور تماشائی حاضر ہونا ممنوع ہے۔
تاہم ممانعت کے باوجود بہت سی ایرانی خواتین اپنی قومی ٹیم کے میچ دیکھنے کے لیے اس پابندی کی خلاف ورزی کی کوششیں کر چکی ہیں۔
سال 2013ء میں بہت سی مہموں کے ذریعے دباؤ ڈالا گیا تا کہ کھیل کے میدانوں میں خواتین کو داخلے کی اجازت مل سکے۔ یہ پیش رفت فیفا کے سابق سربراہ سیپ بلاٹر کے ایران کے دورے سے قبل دیکھنے میں آئی۔ پلاٹر نے ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے فٹبال کے میدانوں میں ایرانی خواتین کے داخلے کے معاملے پر بھی بات چیت کی۔
فیفا کے بے پناہ دباؤ کے بعد اکتوبر 2018ء میں تہران کے آزادی اسٹیڈیم میں ایران اور بولیویا کے بیچ فٹبال میچ میں صرف 100 خواتین کو بطور تماشائی آنے کی اجازت مل گئی۔
واضح رہے کہ ایران میں کوئی سرکاری قانون موجود نہیں ہے جو خواتین کو کھیل کے میدانوں میں داخل ہونے سے روکے۔
کھیلوں کے ایرانی صحافی سروش فدائی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ “ایران میں خواتین کے حوالے سے صورت حال بہتری کی جانب گامزن ہے۔ ماضی میں تو خواتین میچوں کے ٹکٹ بھی نہیں خرید سکتی تھیں تاہم اب ایرانی خواتین صحافیوں کے لیے جنوری سے تہران میں لیگ میچز میں داخلے کی اجازت ہے”۔