استاد امان اللہ عمرانی ۔ شفیع اللہ عمرانی

556

استاد امان اللہ عمرانی

تحریر: شفیع اللہ عمرانی

دی بلوچستان پوسٹ

اگر کسی کو عشق ہے علم سے تو لازماً وہ علم کے دروازے کھٹکھٹانے اور علم کے دروازوں سے گھسنے کی کوشش میں ہر وہ ممکن کوشش کرتا ہے جو وہ اپنی بساط کے مطابق کرنا چاہتا ہے ۔علم کو صحیح طرح سمجھنے، مشاہدہ کرنے کے لیئے ماحولیاتی مشاہدہ، معاشرتی پریکٹس کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی کافی حد تک کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں ۔

انہی کتابوں کو سہارا بناکر علم الحق، سچ و بردباری، ایثار، درگزر و صبر کی تلقین بھی کئی لوگوں نے حاصل کی ہے تو کئی محبت کے مسیحاہوں نے کتابوں کا مجموعہ لائبریری کا اہتمام بھی کیا ہے کچھ لوگ تو کتابوں کے اتنے دیوانے ہیں کہ جنہوں نے اپنے گھروں کو بھی اس زینت کا مرکز بناکر گھر کے کونے پہ لائبریری بناچکے ہیں ۔

نوغے علم اور دانست کے معاملے میں سب تحصیل باغبانہ اور خضدار میں خاصا اہمیت رکھتا ہے اور نوغے شہر سے ہی پلا بڑھا ایک نوجوان امان اللہ زندانی عمرانی نے اس کتابی محبت کو خضدار کانک میں موجود اپنے گھر کے شروعاتی حصے میں شامل کیا یوں کہیں کہ ماسٹر امان اللہ زندانی عمرانی کے گھر میں دخول کا رستہ بھی کتابوں کے دیدار سے ہوکر گزرتا ہے۔

علم کسی کی میراث نہیں اور سیکھنے سے کوئی کسی کو روک نہیں سکتا اور جب آپ اپنے پیٹ پہ پتھر باندھ کے اپنا سارا خرچہ کتابوں پہ خرچ کرنا شروع کردیں تو ظاہراً آپ دنیا کے سامنے تو معاشی حوالے سے کمزور نظر آئینگے مگر معاشرتی تبدیلی اور فلاح و بہبود کے حوالے سے آہستہ آہستہ آپکا کام بہت ہی کار آمد ثابت ہوجاتا ہے۔

جس نے نوغے کا نام سنا ہے تو وہ رئیس رسول بخش عمرانی (رئیس خاندان) سے بہت اچھی طرح واقفیت رکھ رہا ہوگا۔ ماسٹر امان اللہ عمرانی بھی رئیس رسول بخش عمرانی کے نواسوں میں سے ایک ہے۔ رئیس رسول بخش عمرانی نے نوغے کے ساتھ ساتھ معاشرتی حوالے سے باغبانہ، توتک، پارکو، زہری، خضدار، نال، کرخ سندھ کے بیشتر علاقوں قلات اور دیگر جگہوں پہ فلاح و بہبود کے حوالے سے ایک نام کمایا ہوا ہے۔

ماسٹر امان اللہ عمرانی ولد رئیس پیر بخش عمرانی بچپن سے ہی علم و دانست کے حوالے بہت ہی عمدہ اور مثبت سوچ رکھتا ہے، بنیادی علوم نوغے میں موجود پرائمری اسکول، مڈل اور میٹرک ہائی سکول باغبانہ سے مکمل کی اور اپنے اسکول کے دورانیہ سے ہی بہترین شاعری اور لکھنے کی کوشش میں مگن رہتے تھے اور آج تک ماشاء اللہ براہوئی ادب میں ایک بہتر شاعر اور مضمون نگاری میں اچھے لکھاری کے طور پہ مانے جاتے ہیں۔

پروفیشنل تعلیم پی ٹی سی قلات سے، ایف اے اور بی اے کے علوم و ڈگری بھی حاصل کی کچھ سال بلوچستان کانسٹیبلری میں رہنے کے بعد واپس بزرگانہ پیشہ اختیار کرکے ایک استاد بنے اور آج تک خضدارمیں اپنی تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔

بہت سال ہوئے خضدار میں جناب نے شفٹنگ کی تو اسی دوران انہوں نے مذہبی، معاشرتی اور دیگر علوم کے اندر مکمل طور پہ گھس کے علم حاصل کرنے اور اپنے لوگوں تک اس علم کو پھیلانے کی خاطر اپنی مدد آپ ایک لائبریری بنایا اور آج تک وہ لائبریری موجود ہے۔
واضح رہے نوغے چاروں طرف سے پہاڑی علاقہ ہے لوگ اپنی مدد آپ اپنے بچوں کو پڑھاتے، علاج کرواتے اور ہر مشکل کا حل اپنی مدد آپ نکالنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ماسٹر امان اللہ عمرانی نے اپنا گھر بار سب صرف اور صرف علم حاصل کرنے اور تعلیمی خدمات سرانجام دینے نوغے سے کانک خضدار شفٹ ہوا۔

لائبریری علم و فکر اور تعلیم و تعلم کا مظہر و مرکز ہے ’’کتب‘‘ سفاہت سے معرفت، جہالت سے علم اور ظلمات سے نور کی طرف لے جاتی ہیں، اور ماسٹر صاحب نے اس بات کو صحیح صحیح سمجھ کے مکمل پلاننگ کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کیا۔ کسی بھی قوم کو کسی بھی میدان میں عملی تجربات سے قبل نظریات اور اصول چاہیے جن کی حفاظت و ترویج گاہیں لائبریریاں ہیں اور ماسٹر امان اللہ زندانی عمرانی نے اس فلسفے کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی خاطر ہی اپنا گھر بار چھوڑ کر خضدار شفٹ ہوا۔

ماسٹر صاحب کی جیسے علم سے لیس لوگوں کی اہمیت و افادیت کو مہذب قوموں نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے۔ اہل علم کسی ملک میں پائی جانے والی لائبریریز کو اس ملک کی ثقافتی، تعلیمی اور صنعتی ترقی کا نہ صرف پیمانہ بلکہ قومی ورثہ قرار دیتے ہیں۔ اگر کسی ملک کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو وہاں پر موجود تعلیمی اداروں کو دیکھا جائے اور تعلیمی اداروں کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو وہاں پر موجود لائبریریز کو دیکھا جائے۔ جہاں لائبریریز آباد ہوں گی وہاں تعلیمی ادارے بھی اسی قدر تعلیم و تحقیق میں فعال ہوں گے۔ جس کا لازمی نتیجہ گھر، خاندان دیہات ضلع صوبہ سے لیکر ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی اور عوام کی خوشحالی ہے۔ تاریخ بھی اُنہی قوموں کا احترام کرتی ہے جو اپنے علمی سرمائے کی حفاظت کرنا جانتی ہیں۔ مہنگائی کے اِس دور میں نئی کتابیں خریدنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اس لئے ذاتی لائبریری بنانا بھی ناممکن ہوتا جارہا ہے تو اس اعتبار سے بھی لائبریریز کی اہمیت کہیں بڑھ جاتی ہے، پھر ہر انسان کی اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ بعض تاریخی کتابیں پسند کرتے ہیں۔ بعض ادبی، بعض سیاسی اور بعض دینی کتابوں کا شوق رکھتے ہیں۔ ایک لائبریری میں مختلف موضوعات سے متعلق کتابیں ہوتی ہیں اور ایک موضوع پر بہت سے کتابیں مل جاتی ہیں اور انسان بیک وقت ایک موضوع پر ہر قسم کے خیالات سے استفادہ کرسکتا ہے۔ تجزیے، تحقیق، رائے اور بھی بہت سے ذریعے ہیں لائبریری کی افادیت کو بیان کرنے کے لیے مگر مُختصراً یہ کہ جیسے ہر شے کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے لیے ایک ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کتابی کلچر کو بڑھانے کے لیے معاشرے میں لائبریریوں کی ضرورت ہے۔

آئیں ہم سب عہد کریں کہ ماسٹر امان اللہ زندانی عمرانی جیسے اپنے لوگوں کو دل سے قبول کرکے ایسے لوگوں کے تعلیمی خدمات کا احترام کرینگے اور ہر ممکن کوشش کرینگے کہ ہم بھی اپنے اپنے گھروں میں اپنی بساط کے حساب سے پرسنل لائبریرز بناکر اپنے بچوں اور لوگوں کو علم کی شمع سے محبت امن درگزر اور فلاح و بہبود صبر کا درس دلائینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں