آپریشن ناگاہو
تحریر: من دوست بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سورج طلوع ہوچکا تھا، ہم اپنے کیمپ میں موجود تھے کچھ دوست لکڑیاں لانے کے غرض سے گئے تھے جبکہ دو ساتھی چائے پینے میں مشغول تھے جو ابھی گھاٹ تبدیلی کے بعد نیچے کیمپ آئے تھے۔ اسی اثناء میں ڈیوٹی پر موجود ساتھی نے مخابرہ پر آواز دی کہ “ہیلو۔۔۔۔۔۔۔ سنگت آک ڈرون نا توارے۔” (ہیلو، ساتھیوں ڈرون کی آواز ہیں)، مخابرے پر اطلاع کے ساتھ ہی اچانک سے ایک ڈرون طیارے کہ آواز سنائی دی اور ایک زور دار دھماکا ہوا جس کے فوراً بعد میں ایک ڈھلان پر چڑھا تو دیکھا کہ ڈرون جارہا ہے اور ہیلی کاپٹروں کی آواز بھی قریب تر ہوتی جارہی ہے۔ توڑی ہی دیر میں ہم سے نسبتاً تھوڑی دور علاقے میں ہیلی کاپٹروں نے فائرنگ کھول دی اور شیلنگ کرتے رہیں، ہمیں اندازہ ہوچکا تھا کہ یو بی اے، بی این اے یا بی آر اے کے سرمچاروں پر حملہ ہوا ہے۔ ہمیں نقصان کا اندازہ نہ تھا جبکہ ہم اپنی گوریلا حکمت عملی کے تحت پوزیشن سنبھال کر اپنی دفاعی پوزیشن میں تھے جبکہ دیگر ساتھی اسی اصول کے تحت پہلے ہی کیمپ سے باہر تھے۔
ہم نے وتاخ سے باہر نکل کر ایک اونچائی پر اپنے پوزیشن سنبھال لیے اور دور بین سے علاقے کی صورتحال معلوم کرنے کی کوشش، ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ جاری تھی اور کمانڈوز بھی اُتارے جاچکے تھے۔ دوستوں کی صورتحال کا کچھ اندازہ نہ تھا مگر نقصان کا خدشہ محسوس ہو رہا تھا۔ دن کے 12 بج چکے تھے، ہم نے ایک جگہ چن کر اپنے لیے راشن، سامان اور پانی وہاں منتقل کر دی اور کچھ دوست گھاٹ پر تھے، کچھ خوراک کے بندوبست میں لگے ہوئے تھے جبکہ وہاں ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ و کمانڈوز کی نقل و حرکت جاری تھی۔ ہم پورا دن اسی حالت میں گزار چکے تھے اب شام ہوچکی تھی اور میرے گھاٹ سنبھالنے کی باری آئی جبکہ ہیلی کاپٹر بھی چلے گئے۔ میں نے دوستوں کو اطلاع دی کہ شیلنگ مغرب سات بجے تک چلتی رہی اور اب خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
ڈیوٹی تبدیل ہوگئی اب میری جگہ رشید ثانی (خالد حسین) نے سنبھال لی۔ میں دوستوں کے پاس گیا جہاں دوست مشورہ میں مصروف تھے کہ کس طرح ساتھی تنظیموں کے دوستوں کی مدد کی جائے۔ ایک گھنٹہ گذرنے کے بعد رشید نے مخابرے پر کوڈ کے ذریعے بتایا کہ ہماری طرف کچھ لائیٹ آگے بڑھ رہے ہیں جس پر ہم اپنا ساز و سامان باندھ کر روانہ ہوئے اور پہاڑ کی دوسری طرف جاگ کر بیٹھ گئے تاکہ صبح روشنی میں دیکھ سکیں کہ کیسے لوگ ہیں۔
اب تاریخ 26 مارچ ہوچکی تھی یعنی فوجی آپریشن کا دوسرا روز تھا جبکہ دور دور ہیلی کاپٹروں کی آواز سنائی دیتی اور گم ہوجاتی، میں اور ایک دوست صبح گھاٹ پر تھے باقی دوست نیچے ہم سے نزدیک موجود تھے۔ ہم نے دیکھا کہ ہم سے نزدیک پانی پر تین چار افراد موجود ہیں، وہ لوگ پانی کے عقب میں نظروں سے اوجھل ہوگئے، ہم نے ساتھیوں کو اطلاع کی کہ کچھ لوگ اس مقام پر موجود ہیں اب دوست سوچ میں تھے کہ یہ کیسے لوگ ہیں، پہناوے میں علاقائی لوگوں کی طرح ہے، شاید علاقائی مالدار و دیگر لوگ ہیں جو آپریشن کے باعث اس جانب بھاگ کر آئے ہیں۔
دوستوں نے مجھے، رشید، ایک اور ساتھی کو وہاں جاکر معلوم کرنے کا کہا کیونکہ بغیر تصدیق کے کوئی بھی عمل نقصاندہ ہوسکتی تھی۔ ہم دست آہستہ آہستہ پوزیشن سنبھالتے ہوئے آگے گئے اور جہاں پر پہلے وہ لوگ ہمیں نظر آئے تھے ہم اسی مقام پر پہنچے، اسی اثناء ان میں سے ایک شخص چند گز کے کے فاصلے پر دکھائی دیا تو میں نے اسے آواز دی، میری آواز سن کر وہ شخص پیچھے ہٹ کر ایک پتھر کے پیچھے چھپ گیا جہاں اس کی بندوق رکھی ہوئی تھی اور اپنے ساتھیوں کو آواز دینے لگا۔ اب ہم سمجھ گئے کہ یہ علاقائی افراد نہیں بلکہ دشمن کے کارندے ہیں جو علاقائی بھیس میں آئے ہیں۔
وہ شخص چھپ گیا، اب وہ ہمارے نظروں سے اوجھل تھے، لگ رہا تھا کہ وہ باگ گئے ہیں مگر ہم اندازوں پر مطمئن نہیں ہوسکتے تھے، اب ہمیں آگے بڑھ کر علاقے کو کلئر کرنا تھا۔ ہم پوزیشن سنبھالے ہوئے تھے، ان کے دو لوگ ایک دوست سے ظاہر ہوئے اور دوست پر حملہ کرنے والے ہی تھے کہ دوست نے ان پر فائرنگ کھول دی اور ان میں سے ایک مارا گیا اور دوسرا زخمی ہوا۔
رشید دوسری جانب تھوڑے فاصلے پر تھا، اسی اثناء میں اس کی طرف بھی فائرنگ شروع ہوئی جس سنگت رشید بھی مورچہ زن ہوکر دشمن کی طرف فائرنگ کرنے لگا۔ ہم سے اوجھل سنگت رشید اور دشمن آمنے سامنے تھے، ہمارے ایک ساتھی نے رشید کی جانب بڑھنے کی کوشش تو اس پر بھی فائرنگ ہوئی اب ساتھیوں کو اندازہ ہوا کہ بڑی تعداد میں دشمن علاقے میں موجود ہیں۔ ہم تین ساتھی اپنی پوزیشن سنبھالے ہوئے تھے اور حرکت بھی کر رہے تھے جبکہ سنگت رشید پر مختلف اطراف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری جس کے باعث وہ اپنی پوزیشن چھوڑ نہیں سکتا تھا جبکہ وہ دشمن کو بھی پیشدقدمی سے روکے ہوئے تھا۔
میں اور دوسرا ساتھی دشمن کے فائرنگ رینج سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب ہم رشید اور دوسرے ساتھی کو گھیرے سے نکالنے کے لیے سوچ رہے تھے جبکہ دوسری جانب مسلسل فائرنگ کی آواز آرہی تھی، تقریباً چار گھنٹے بعد ہم نے تیسرے ساتھی کو اپنے قریب دیکھ کر آواز دی، اب تیسرا دوست بھی ہمارے پاس پہنچ چکا تھا اس نے کہا کہ رشید شہید ہوچکا ہے۔
ہم آہستہ آہستہ کور پوزیشن سنبھالتھے ہوئے محفوظ مقام کی جانب حرکت کرتے رہیں۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ دشمن کی ٹارگٹ ہمارے سرمچار ساتھیوں کا کیمپ تھا جسے انہوں نے اپنے ریکی کے اندر رکھا ہوا تھا اور بھیس بدل کر وہ شام کے وقت حملہ آور ہونا چاہتے تھے، دشمن کی چال ناکام ہوگئی مگر سنگت خالد حسین عرف رشید ہم سے جسمانی طور جدا ہوگیا، سنگت کی بہادری و ہمت تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ شہید رشید وطن کے دفاع میں جان کا نظرانہ پیش کرکے ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا اور اس نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ بلوچ اپنا فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ غلامی کو کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں