ہم وہاں کھڑے ہیں جب 1967 میں تھے ! ۔ ظفر رند

308

ہم وہاں کھڑے ہیں جب 1967 میں تھے !

تحریر: ظفر رند

دی بلوچستان پوسٹ

ترقی پسند سماج کے لوگ ہمیشہ نئی راہوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اپنے سماج کو آگے کی طرف لیجانے کی جدوجہد کرتے ہیں تاکہ وہ مزید دنیا کی اس تیز رفتار ترقی سے فائدہ اٹھا کر اپنے سماج کو فیض یاب کر سکیں۔ یہی ارتقاء کی اصول ہوتی ہیں کہ وہ کہیں نہیں رکتا، آپ جہاں کھڑے ہو اسکا انتظار قطعی طور پر نہیں کرتا بلکہ وہ آگے بڑھتا رہیگا۔

ہمیشہ ہم اپنی بات یا ڈسکشن فرسٹ ورلڈ سے شروع کرکے اسے خوبصورت انداز میں رومینٹیسائیز کرکے پیش کرتے ہیں اور ان سے یہی امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری صف میں کھڑے ہوکر ہماری ہی بات کریں اور ہم سے جڑے رہیں مگر ہم اپنی دھرتی ماں کی حقیقت سے یا تو ناواقف ہوتے ہیں یا پھر آنکھیں چرا لیتے ہیں۔

کبھی ہم اس حقیقت سے آشناء ہونے کی کوشش تک نہیں کرتے ہیں کہ اس سرزمین کے فرزند کیا سوچ رہے ہیں اور کیوں ان کو راستہ نہیں مل رہا ہے۔ وہ کیوں سیاست جیسے عظیم عمل سے دوری اختیار کرتے ہیں اور کیوں ہماری سماج میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ ہم ترقی کی بات تو کرتے ہیں کیا ہمارا بلوچ سماج آگے بڑھ رہا ہے یا ابھی تک ہم 1967 کی جگہے پر کھڑے ہیں جہاں ہماری سیاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

بانی بلوچ سیاست واجہ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب اپنی زندگی کے شروعاتی دنوں سے لیکر اپنی زندگی کے آخری لمحات تک بلوچ سیاست کے ساتھ جڑے رہے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے بلوچ سماج کے اندر عروج اور زوال دیکھا۔ کہیں آپ نے اپنے ساتھی کی لاش اپنے ہی ساتھ کھڑے ہونے والے بلوچ کے ہاتھ میں قتل ہوتے ہوئے دیکھا تو کہیں آپ نے اپنے ساتھ کھڑے ہونے والے ساتھی کو مایوس ہوتا ہوا دیکھا۔ کہیں آپ نے اپنے ساتھی کو مایوس ہوتے ہوئے نشہ جیسے عمل میں دیکھا۔

زندگی کے اس سفر میں واجہ نے بہت سے عروج اور زوال اپنی آنکھوں سے دیکھیں مگر وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے، آخری دنوں میں جب آپ سے ملاقات ہوئی تو تب بھی وہ کسی نئی چیز کی تلاش میں تھا تب بھی وہ دیمروی کے بارے میں سوچ رہے تھے تب بھی وہ اس فرسودہ سماج اور روایتی سیاست سے مایوس تھے اور انکے خلاف آواز بلند کر رہے تھے مگر اسکو سننے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی اسکے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی مخلص ساتھی تھا۔

وہ جدوجہد کے میدان میں اپنی زندگی کے آخری سانس تک لڑتے رہے مگر افسوس کہ وہ خواب جو اس نے دیکھا وہ پورا تو نہیں ہو سکا مگر اپنی آنے والی نسل کے لیے بہت سے رائے ہموار کی اور سوالات رکھے۔

ڈاکٹر صاحب نے بلوچ سماج کے اندر جس دن اس سیاسی سفر کی بنیاد رکھی آج بھی ہم اسی جگہ پر کھڑے ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ شاید اسکو قبول کرنے والا آج کوئی نہ ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ اس سفر میں ہمیں سوائے مایوسی، نقصانات اور پیچھے دھکیلنے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ وہ سماج آگے بڑھتے ہیں جسکی لیڈرشپ میں یہ صلاحیت ہوں کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کریں ایک دوسرے کے لیے راہ ہموار کریں اور سوال کرنے کو اہمیت دیں اور تخلیقی عمل کو ترجیح دیں۔

1967 سے لیکر آج تک ہم اپنی حقیقی دشمن کو پہچاننے میں ناکام ہوئے ہیں ہماری جنگ ان جابر حاکموں سے زیادہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رہی ہے آج بھی ہم اس گول دائرے میں کھڑے ہیں جہاں 50 سال پہلے کھڑے تھے۔

ڈاکٹر عبدالحئی کی یاد میں گذشتہ دن تعزیتی ریفرینس رکھی گئی جس میں بی ایس او کی ایکس قیادت نے بھر پور شرکت کی اور بڑے احترام سے منایا گیا۔ یہ بات قابل فخر ہیں کہ ہمیں مدتوں بعد یہ دیکھنے کو ملا کہ ہماری قیادت ایک صف میں کھڑی ہے۔ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر عبدالحئی کی روح کو سکون ملا ہوگا یہ دیکھ کر کیونکہ وہ یہی خواب دیکھتا رہا ہیکہ کب ہم ایک ہی صف میں کھڑے ہونگے۔ مگر ساتھ میں ہماری سابقہ قیادت پر بھی بہت سارے سوالات چھوڑ کر گیا ہے کہ کاش ہم اپنے اس بزگ سماج کی بزگی کو پہلے محسوس کرتے ہوئے ایک ساتھ کھڑے ہوتے تاکہ ہماری نسل کو اتنی بڑی نقصان کا سامنا نہ ہوتا۔ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائیوں کے مسخ شدہ لاشیں نہیں دیکھتے ہم اپنی ماوں اور بہنوں کو روڈوں پر تڑپتے نہیں دیکھتے ہم اپنے بچوں کو اسکول کے بجائے روڈوں پر پوسٹر لیتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ یہ آپ ساتھیوں کے غلط اور ناکامیوں کے سبب ہے کہ آج ہم اتنی اذیتیں برداشت کر رہے ہیں کہیں نہ کہیں اس کے ذمہ دار آپ ساتھی بھی ہے کیونکہ آپ ساتھیوں نے بجائے ہماری رہشونی کے اپنے ذات اور مفادات کو ترجیح دیا جس کے سبب ہماری پوری نسل مایوس ہوکر سیاست جیسے عظیم عمل سے دور رہا ہے۔ مگر یہ بات پھر بھی قابل فخر ہے کہ آپ ساتھیوں کو یہ احساس ہوا کہ آپ لوٹ کر واپس اسی جگہ پھر کھڑے رہے جو آپکو بہت پہلے آکر کھڑا ہونا تھا۔ بس یہی ہوا کہ ہم نے وقت ضائع کیا ہم آگے کے بجائے پیچھے چلے گئے اور آج ہم نے پھر شروعات کرنی پڑ رہی ہے امید ہے کہ اس عمل کو تیز کرکے اپنی تاریخی غلطیوں پر نظر ثانی کرکے مسقتبل کے لیے نئی راہیں ہموار کرینگے۔ جس طرح کارل مارکس کہتا ہے کہ: شرمندگی بھی ایک انقلابی عمل ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں