ہم فیملیز ۔ عمران بلوچ

586

ہم فیملیز

عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جی میرا تعلق فیملیز سے ہے، جب کسی کا ایسا تعرف ہو یا کوئی خود اپنا یہ تعرف کرائے تو ایسے میں پہلے تو آپ کو اور ہمیں فیملی یعنی خاندان کی تعریف ڈھونڈنا پڑتی ہے جیسا کہ مختلف ملکوں اور اقوام میں وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اس کی تعریف کافی بدل گئی ہے، بہرحال انگریزوں کے ہاں میاں بیوی اور ایک آدھ بچے ہی خاندان کی تعریف میں أتے ہیں، ان کے ہاں مشترکہ خاندان کا کافی حد تک تصور ختم ہے بس ایک آدھ کمروں کی فلیٹ میں رہنے والے ہی خاندان کہلاتے ہیں، یعنی کچھ اب ہمارے ہاں شہروں میں ہورہا ہے بہرحال دیہاتوں میں معاملہ کچھ الگ ہے۔

ہمارے ہاں بلوچوں اور پشتونوں کے ساتھ معاملہ کچھ الگ ہے اول تو ہمارے ہاں مشترکہ رہنے کا تصور ہے، دوم والدین بہن بھائیوں کے علاوہ چچازاد خالہ زاد نزدیکی کزنز سب خاندان ہی میں آتے ہیں بلکہ بلوچ تو سانگبندی رشتہ داری کو بڑے احترام سے دیکھتا اور بڑا گہرا تعلق مانتا ہے، اسی لئے ہر بلوچ کے ہاں خاندان کی تعریف اوپر بیان کئے گئے تعریف سے ملتا جلتا ہوگا۔

ایک وکیل کی حیثیت سے ہماری ساری وابستگی سائلین سے ہی پڑتا ہے ہر ایک کی اپنی کہانی ہوتی ہے پھر سماجی سیاسی اور انسانی حقوق کے لئے جدوجہد سے کچھ حد تک واسطہ بھی ہے، ایسے میں بعض معاملات ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ سن کر انسان کا خون جم کر خشک ہوجاتا ہے اور پھر نہ زبان ساتھ دیتی ہے نہ أنکھیں اور نہ ہی کان کیونکہ سامنے والا اگر اپنی تعریف میں یہ بتادے کہ میرا تعلق فیملی سے ہے یا یہ کہ ہم فیملیز سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں یہ سن کر انسان نہ صرف پریشان ہوتاہے بلکہ مختلف کیفیتوں کا شکار ہوجاتا ہے کہ کہنے والا کہنا کیا چاہتا ہے؟

پہلی بار کہنے والے کی یہ بات سن کر کہ میرا تعلق فیملی یا فیملیز سے ہے یہ سن کر انسان کی ہنسی نکل جاتی ہے جسے چھپا کر مسکرانے پر گزارا کرنا پڑتا ہے کیونکہ سننے والا یہ سوچ کر ہنسنے لگتا ہے کہ جی میرا تعلق بھی ایک فیملی سے ہے میرا بھی ایک خاندان ہے تو پھر یہ کیسی بات کہ میرا تعلق فیملی سے ہے یا ہم فیملیز سے ہیں۔انسان اندازہ لگانے لگتا ہے کہ آیا ان کے پاس تعلیم شعور یا ضرور کچھ نہ کچھ ایسا ہے جس پر یقیننا ان کو فخر ہے جو یہ لوگ ایسا بولتے ہیں، مشاہدے سے یہ ثابت بھی ہوجاتا ہے کہ جی ہاں یہ تعلیم یافتہ سلجھے ہوۓ اور اچھے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اس کے علاوہ سیاسی اور سماجی طور پر یہ اس معاشرے کے باہمت لوگ ہوتےہیں اچھا ان کے ہاں درد اور تکلیف بھی ہے جو بہت گہری ہے، یہ انتہائی باہمت لوگ ہوتے ہیں یہ باتیں بھی انصاف دلیل اور عقل و علم اور منطق کی کرتے ہیں اور یہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں ان سب کا سربراہ بس ایک بزرگ آدمی ہے، جو ان کے ایک عدد گھر کا مالک ہے، یہ سب اس بزرگ کو ماما اور گھر کو کیمپ کہہ کر پکارتے ہیں اس بزرگ یعنی ماما نے یہ گھر نما کیمپ چار ہزار چھ سو سات دن پہلے بنایا ہے۔ مگر اب وہ اپنے اس گھر کو مٹاکر ختم کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ روزانہ کی بنیاد پر ایک ذمہ داری نبھا رہا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ لہذا وہ بس لڑ رہا ہے فیملیز کو ساتھ ملا رہا ہے سب کندھے سے کندھا ملا کر نبھا رہے ہیں۔ ان کا گھر ہے کہاں اور ان کا یہ ماما ہے کون؟ اس گھر میں سامان کیا ہے؟ یہ فیملز چاہتی کیا ہیں اور یہ کون ہیں؟ کیا یہ فیملی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی سے ناراض ہے خائف ہے؟

جی ہاں یہ عدلیہ نامی شہ سے ناامید ہیں آئین اور قانون سے گلہ مند ہیں ان کے بقول نہ انھیں کوئی انسان سمجھتا ہے نہ انھیں ان کے حقوق دیے جاتے ہیں لٰہذا انسانی حقوق نامی شہ کس چیز کا نام ہے اور کس مرض کی دوا ہے؟ یہ وکیلوں اور بلوچ وکیلوں سے ان کی نالائقی سے ان کی منافقت لالچ اور خود غرضی مطلب پرستی سے نالاں ہیں ، ان کی حوس اور حرس پرستانا نظریں ان کو چھبتی ہیں۔ ہاں یہ ہمیشہ گھومتے پھرتے ہیں یہ آپ کو ہر پریس کلب ہر چوک ہر سڑک پر ملینگے۔

ان کا آبائی گھر تو کوئیٹہ پریس کلب نامی بے حس عمارت کے سامنے ہے جہاں نزدیک ہی ایک اور پتھر نما سنگدل شہ یا پہاڑ عدالت کے نام سے موجود ہے جسے عدالت عالیہ کہتے ہیں اور عالیہ بھی اس سے زیادہ اختیار دار ہے اس کے نزدیک ہی یہ ایک ٹینٹ نما گدان میں رہتے ہیں ان کے ہاں مہمان جوق در جوق آتے رہتے ہیں ان کے گھر میں نہ راشن نہ الماری نہ کپڑے نہ کھانے پینےکی چیز ہیں، ان کے ہاں لفظ بھوک ہڑتال مظاہرہ دھرنہ ریلی احتجاج بہت مشہور ہیں۔ ان کی کل ملکیت نہ سونا ہے نہ چاندی بس تصویریں ہی تصویروں ہیں انہوں نے تصویروں کا پورا اسٹوڈیو سجایا ہے۔ اس میں گھر کا سربراہ جسے سب ماما پکارتے ہیں صبح نو بجے سے شام پانج بجے تک بیٹھا رہتا ہے۔

ویسے ہمارے ہاں کسی کو ماما کہنے کا مطلب یار باش ہے ، مگر اس ماما کی مانگ سن کر اچھے اچھوں کی ہوش اڑ جاتے ہیں۔ یہ ہر أنے جانے والے کو خوش أمدید کرتا ہے یہ جب زیادہ درد اور تکلیف میں ہو تو بمعہ فیملی کے کراچی پریس کلب اسلام أباد پریس کلب فدا شہید چوک تربت اور گورنر چوک کوئیٹہ میں جائیداد بناکر عارضی قیام کرتانظر أتا ہے یہ فیملی تھکتا نہیں ہے، بکتے نہیں ہیں عجیب دیوانے لوگ ہیں بس ہر وقت ہر لمحہ بازیاب کرو بازیاب کرو عدلیہ کے سامنے پیش کرو پکارتے رہتے ہیں۔

جی ہاں یہ ہیں بلوچ مسنگ پرسنز کی فیملیز ہیں۔ جب کھبی اور کسی بھی ذریعے سے آپ کا ان سے ملاقات یا واسطہ ہو تو یہ اپنا تعرف فیملیز کہہ کر کرتے ہیں یعنی متاثرین یا متاثرہ فیملی، کسی کا باپ کسی کا بھائی کسی کی اولاد کسی کا شوہر غائب ہے۔ ان کیمپوں نے گزشتہ بیس سالوں میں ایک نئی نسل پیدا کی ہے جو ان کیمپوں پریس کلبوں سڑکوں اور چوراہوں پر پلے بڑھے ہیں۔ یہ واقعی فیملیز ہیں، بس کوئی سمجھنے اور احساس کرنے والا ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں