گوادر دھرنا جاری، سیکورٹی فورسز کا خواتین پر تشدد

583

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں اپنے مطالبات کی حق میں “بلوچستان حق دو تحریک” کا دھرنا آج تیسرے روز گوادر پورٹ کے سامنے جاری ہے۔ دھرنے کے باعث گذشتہ تین روز سے پورٹ میں کام معطل جبکہ آمد و رفت متاثر ہونے کی وجہ سے پورٹ انتظامیہ اور سیکورٹی اداروں کو مشکلات کا سامنا ہے –

ہفتے کے روز مقامی مردوں کے ہمراہ خواتین کی بڑی تعداد جی ٹی کے سامنے جمع تھی کہ وہاں تعینات میرین سیکورٹی کے اہلکاروں نے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی –

دھرنے میں شریک خواتین کے مطابق سیکورٹی فورسز نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور گالم گلوچ کی۔ بعد ازاں حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ وہاں پہنچ گئے اور شہر سے مزید لوگوں نے دھرنا مقام کا رخ کیا –

اس موقع پر میرین سیکورٹی فورسز کے افسران نے انہیں اس مقام سے دھرنا ختم کرنا کا کہا، تاہم حق دو تحریک کے رہنماؤں نے کہا کہ دھرنا یہاں جاری رہے گا اور سیکورٹی ادارے اپنے رویہ میں تبدیلی لائیں، باہر سے آئے ہوئے لوگ ہمارے خواتین کو گالیاں دیں یہ برداشت نہیں کریں گے –

دھرنا منتظمین نے کہا کہ ہماری کوئی نئی مطالبات نہیں ہیں۔ پچھلے سال دھرنے میں حکومت نے جو مطالبات تسلیم کیے تھے ان پر عملدرآمد کیا جائے –

گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی صحافی نے دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو بتایا کہ اس مرتبہ گوادر پورٹ پر دھرنے سے اداروں کو پریشانی کا سامنا ہے۔ اگر دھرنا طویل رہا تو طاقت کا استعمال بھی ہوسکتا ہے۔

یاد رہے کہ پچھلے سال حق دو تحریک میں شامل مظاہرین نے حکومت کو انیس مطالبات پیش کئے۔ ان مطالبات میں بلوچستان کی بلوچ آبادی پر مشتمل مکران ڈویژن میں غیر ضروری سکیورٹی چیک پوسٹوں کا خاتمہ، گوادر کی سمندری حدود میں غیر ملکی ٹرالرز کے داخلے اور شکار پر پابندی، ایران سے اشیائے خورونوش کی درآمد کی اجازت، شراب خانوں کے لئے جاری کیے گئے لائسنسوں کی منسوخی، لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ سمیت دیگر مطالبات میں شامل تھے۔