کیا ایوب بلیدی شہید ہیں؟
رگام بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
90 کی دہائی میں بلوچستان کے علاقے بلیدہ میں ایک قبائلی تنازعہ ہوا جو 2013 میں جاکر اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ اس تنازعے میں دونوں فریقین کے علاوہ مجموعی طور پر تقریباً 20 افراد اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اس تنازعے میں دسیوں لوگ معمولی یا شدید زخمی بھی ہوئے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں یا ایک رائے عامہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں سے کچھ لوگوں کو قومی شہداء کا درجہ دیا جائے اور بلوچ شہداء کی تاریخ کو متنازعہ کیا جائے جو یقیناً ایک انتہائی بچگانہ اور غیر سنجیدہ عمل ہے۔
یہ تنازعہ خالصتاً دو قبیلوں کے درمیان شروع ہوا جس نے آگے جاکر دیگر علاقائی قبائل کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ اگر کوئی اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ یہ جنگ ریاستی سازش تھی یا اس طرح کی کوئی شکل دینے کی کوشش کرے تو شاید بہت سے منفی یا مثبت کرداروں کے ساتھ انصاف نہ ہو لہٰذا آج میں نے اس حوالے سے کچھ لکھنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ آج ادارہ سنگر نے بھی مرحوم ایوب بلیدئی کو شہید لکھ کر شائع کیا۔
کچھ حقائق ہیں جن پر بات کی جاسکتی ہے اور بات کی جانی چاہئیے۔ اگر کسی کی یہ دلیل ہے کہ یہ جنگ ریاستی سازش تھی اور اس جنگ میں شامل افراد ریاستی مہرے تھے تو سب سے بڑا مہرہ ایوب خود تھا، جس کے چچا زاد نے علاقے میں بدمعاشی پھیلائی ہوئی تھی کہ اس پورے علاقے میں اگر کسی کو زندہ رہنا ہے یا جان کی امان چاہئیے تو ان کے در پر ماتھا ٹیکے ورنہ اس کو بے عزت کرنے کے ساتھ ساتھ جان سے بھی ماردیا جاسکتا ہے۔ اسی تسلسل میں شمبےزئی قبیلے کے ایک شخص کے ساتھ انکی ہاتھا پائی ہوئی اور رات کے اندھیرے میں ان کی دکان پر جاکر فائرنگ کی گئی۔
بعد ازاں شمبے زئی قبیلے نے اپنا بدلا ایوب کے بہنوئی اور بلوچستان میں پاکستانی فوج کے سب سے بڑے حاضر سروس دلال ظہور بلیدئی کے والد کی خالی کھڑی گاڑی پر فائرنگ کرکے اس کے شیشے توڑ کر لیا تھا، غرور اور ریاستی طاقت میں بد مست ہاتھی نے اپنی گاڑی کے شیشوں کی قیمت ایک انسانی جان قرار دیکر مُلا مُراد شمبے زئی کو قتل کرکے لیا۔ حالانکہ اس تنازعے کو بڑھتا دیکھ کر علاقائی معتبرین نے مداخلت کرکے دیوان اور میڑھ بھیجے کہ اوّل تو یہ حساب کتاب برابر ہے جس طرح بلیدئی قبیلے نے مدمقابل قبیلے کو مالی نقصان پہنچایا اور ان کی دکان پر فائرنگ کرکے ان کو بے عزت کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنا بدلہ لیکر حساب برابر کیا لیکن اگر آپ مطمئن نہیں ہیں تو خُدارا اِس کو آگے نہ بڑھائیں ہم علاقائی معتبرین آپ کی گاڑی کی پوری قیمت ادا کریں گے لیکن انہوں نے عمائدین اور معتبرین کو یہ کہہ کر خالی ہاتھ واپس لوٹایا کہ میری گاڑی کے ٹوٹنے والے شیشوں کی قیمت شمبےزئی قبیلے کے ایک انسان کا سر ہے۔ اُس نے ایسا ہی کیا اور مُلا مراد کو قتل اور عبدالرحمٰن کو شدید زخمی کردیا۔
جب شمبیزئی قبیلے کے افراد نے اپنے قاتل کو قتل کرکے اپنا بدلہ لیا تو ریاستی وزیر نے ریاست کی پوری طاقت شمبے زئی قبیلے کے خلاف استعمال کی اور پکڑ دھکڑ شروع کی جہاں ریاستی فورسز کے ہاتھوں باقاعدہ طور پر چادر و چاردیواری کے تقدس تک کو ٹھیک اُسی طرح پامال کیا گیا جس طرح آج پنجابی فوج ریاستی طاقت میں مست چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتا ہے۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ قبائلی تنازعہ ایک ریاستی سازش تھی تو اس تنازعے میں ریاستی مہرے کا کردار ایوب اور خاندان ادا کررہے تھے، جنہوں نے ریاستی طاقت کو استعمال کیا اور علاقے میں اپنی بدمعاشی اور غندہ راج قائم کرنے کی کوشش کی۔ ریاستی طاقت اس قدر شمبے زئی قبیلے پر استعمال کیا گیا کہ مجبور ہوکر انہوں نے ایوب بلیدئی کو دوران وزارت پنجابی الیکشن کمشنر سمیت قتل کردیا۔
مرے ہوئے انسان کے بارے میں بات کرنا غیر مناسب ہے لیکن ایڈیٹر شوکت بلیدئی کو علم ہو کہ اگر آپ بلوچ تحریک کے شہدا کو اپنی خواہشات کا پابند کرنے کی کوشش کریں گے تو میں مجبوراً ایسے حقائق سامنے لانے پر مجبور ہوجاؤں گا جن کا آج تک شائد ہی کسی کو علم ہو۔
سامی کے ہوٹل میں ایک بلوچ باپ کو بیٹے سمیت شراب کے نشے میں گولیاں مار کر اس لئے قتل کیا گیا انہوں نے رات کے دو بجے مرغی کا گوشت فراہم کرنے سے معذرت کرلی اور کہا کہ اس وقت مرغی کا گوشت کہیں پر بھی دستیاب نہیں کہ پکا کر آپ کو پیش کی جاسکے۔
چونکہ ایوب کا نام بی این ایم سے جُڑا ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ اُس وقت بی این ایم کے لوگ شوکت بلیدئی جیسے انقلابی تھے تو سردار عارف جان بھی بی این ایم کے رُکن تھے، وہ بھی قبائلی جنگ کی نظر ہوئے اُس کو کیوں کوئی قومی شہید قرار نہیں دیتا یا ضیا لانگو کے والد کو کوئی کیوں شہید قرار نہیں دیتا؟
سنگر ادارے کو اس کی وضاحت کرنی چاہئیے کہ وہ کس بنیاد پر ایک غُنڈے اور بدمعاش شخص کو قومی شہید قرار دے رہے ہیں؟ کیا اب ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئیے کہ 13 نومبر کو بھی ایوب کی ایک تصویر شہید فدا احمد، شہید بالاچ مری، شہید نواب اکبر خان بگٹی، شہید غُلام محمد کے برابر میں لگائی جائے گی؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں