کچھ یادیں، کچھ باتیں
تحریر: داد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ لوگ منفرد ہوتے ہیں، ان کے منفرد ہونے کی وجہ اس مفاد پرست دنیا میں انہیں کسی چیز کا مفاد نہیں ہونا ہے، اگر مفاد ہے تو صرف قومی اجتماعی مفادات، یہی لوگ تاریخ کے اوراق میں امر ہوتے ہیں اور امر کیوں نہ ہںو کیونکہ اجتماعی مفاد کے لئے جان سے گزرنا کوئی عام بات نہیں، ہر شخص اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ وہ اپنی سب سے عزیز شئے قربان کرے۔
جان سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی اور قومی بقاء سے بڑھ کر کوئی عزت معنی نہیں رکھتا. اگر غلامی اور قومی وجود سے بیگانہ شخص یہ سمجھتا ہے کہ غلامی کو قبول کرنے کے بعد آقا کی نظر میں اسکی عزت و تکریم بڑھ جائیگی تو وہ اس کا جواب اپنے آقا سے مانگ لیں یا میر صادق، میر جعفر، منصور الخیری یا بلوچستان میں ریاستی آلہ کار کی عزت ریاست کی نظر میں کیا تھی اور کیا ہے ایک باشعور فرد بخوبی سمجھ سکتا ہے.
بلوچ قومی تحریک آزادی کے لئے سینکڑوں نوجوانوں نے جانوں کی قربانی دیکر اس تحریک کی جڑوں کو عوام میں پیوست کردیا ہے. جانوں کی قربانی دینے والےسرمچار، سیاسی کارکنان کی عزت و تکریم ہمیشہ بلوچ قوم کے دلوں میں زندہ ہے اور زندہ رہیں گے.
اپنی اس تحریر میں ایک ایسے سیاسی استاد نما ء دوست کی یادوں اور باتوں کا ذکر کروں گا جس کے لئے تحریک ہی اوڑھنا اور بچھونا تھا. جس کے لیے ذاتی مفاد کی کوئی حیثیت نہیں تھی، کبھی اپنے مفاد کا نہیں سوچا بس قومی اجتماعی مفاد اس کے علاوہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھا.
وہ دوست شہید سنگت گنجل بلوچ عرف مزار جان ہے جو ایک امر کردار ہے. جسکے ہنسنے کی آواز آج بھی پسماندہ لیاری کے گلیوں میں گونجتی ہے اور اسکے بندوق سے نکلی ہوئی گولی شور پارود کے پہاڑوں سے نکل کر ظالم دشمن کے جسم پر پیوست ہورہی ہے. گنجل امر ہے امر رہے گا، گنجل جان کی زندگی صرف دشمن پر قہر بن کر ٹوٹنا نہیں بلکہ سیاست کے میدان میں بھی گنجل کے دوست و ساتھی دشمن پر علمی قہر ڈھا کر اسکی کمزور دیواروں کو مذید کمزور کررہے ہیں.
شہید مزار جان سے پہلی ملاقات فروری 2012 میں ہوئی. یہ وہ دور تھا جب تنظیم کونسل سیشن کی تیاریوں میں مصروف عمل تھی. مزار ایک زونل دوست کے ہمراہ یونٹ باڈی کے سلسلے میں دورے پر آئے ہوئے تھے. پورے اجلاس میں مزار جان نے صرف تنظیمی امور کے ایجنڈے پر تنظیمی اہمیت اور کتاب اور تربیت کے موضوع پر کچھ تجاویزات پیش کئے.
اسکے بعد 2012 میں بی ایس او آزاد کا کونسل سیشن منعقد ہوا، کونسل سیشن میں سیل سسٹم کے انعقاد کا فیصلہ ہوا تو مزار بلوچ سے خاص ملاقات نہ ہوسکی. جولائی 2013 بی ایس او آزاد کراچی زون کا جنرل باڈی اجلاس منعقد ہوا جہاں مزار بلوچ زونل جونئیر نائب صدرمنتخب ہوئے.
اپنی زمہ داریوں سے مخلص مزار بلوچ تنظیمی اصولوں کے مطابق دورے کرتے رہے اور تنظیم کو مضبوط بنانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے.
نومبر 2013 کو مزار بلوچ تنظیمی فیصلے کے مطابق شہدا ڈے کی مناسبت سے تنطیمی پروگرام میں شرکت کی غرض سے آئے اور بالاچ مری کی جدوجہد اور ھالات زندگی پر مفصل روشنی ڈالی، ان کی یہ بات آج تک یاد ہے کہ بالاچ کی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بالاچ صدیوں کے سفر کا نام ہے، ہزاروں تکالیف اور مصائب سے نبرد آزما ہونے کے بعد ایک آہن پیدا ہوتا ہے اور وہ مرد آہن بالاچ مری ہے جسکی زندگی کا ہر قدم بلوچ فلاح و بہبود کے لیے اٹھا. ہمیں ایسے فرزندوں کے افکار کو نہ صرف سمجھنا ہوگا بلکہ ان کے افکار کو زندگی کا حصہ بنا کر ان کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا.
یہ وہ دور تھا جب بی ایس او آزاد مختلف مسائل کا شکار تھی، تنظیم میں دھڑے بندی، انتشار پھیلانے کی کوششیں جاری تھی، فارورڈ بلاک تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی تھی لیکن مزار ڈٹا رہا، مقابلہ کرتا رہا، کسی فرد، کسی ذاتی دوست کے بجائے تنظیمی مفاد کے لئے کام کرتا رہا.
اٹھارہ مارچ 2014 کو زاہد بلوچ کو لاپتہ کیا گیا تو تنظیم کی جانب سے کراچی پریس کلب میں تادم بھوک ہڑتالی کیمپ کا انعقاد کیا گیا تو اسوقت مزار بلوچ زونل صدر تھے، کراچی کے مختلف اضلاع میں متحرک رہے، ریلیاں، مظاہرے، تنظیم کی جانب سے منعقد ہوتے رہے، مزار متحرک رہا، ہمیشہ کام کرتا رہا اور ہمیشہ دوستوں کو جدوجہد کی تلقین کرتا رہا.
جب تنظیم میں فارورڈ بلاک کی تشکیل ہوئی تو کئی لوگوں نے مزار جان کو مختلف طعنے دیئے لیکن وہ کبھی تنظیم سے بدمزگی کا شکار نہیں ہوا بلکہ جدوجہد کی دشوار گزار راستوں سے چل کر اپنے لاغر جسم سے ایک مضبوط نظریاتی شخصیت میں تبدیل ہوتا گیا.
ایک مرتبہ جب فارورڈ بلاک کے وقت جب کچھ وجوہات کی بناء پر مایوسیوں کا شکار ہوا تو مزار سے پوچھا کہ یہ لوگ قوم دوستی کی بات کرتے ہیں لیکن قومی تنظیموں میں توڑ پھوڑ کرنے سے کیوں نہیں ہچکچاتے تو اس کا جواب تھا کہ تحریک میں مفاد پرست لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جو اپنے مفاد کے لیے تنظیم میں دھڑے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ کچھ بھی نہیں آگے جا کر دیکھو اس سے بڑے کھلاڑی ملیں گے جن کے سامنے ہماری حیثیت ایک تماشائی جیسی ہیں لیکن یہ ناکام ہونگے کیونکہ تنظیم شہیدوں کی وارث ہے اور شہیدوں کے خون کا ہر قطرہ ان مفاد پرستوں کو عوام کے سامنے بے نقاب کریں گا اور یہ اپنی موت آپ مرجائے گے ختم ہونگے اور واقعی جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے.
جب کراچی یونیورسٹی کے داخلوں کا آغاز ہوا تو اس کا داخلہ شعبہ تاریخ میں ہوگیا جبکہ سیاسیات، سوشل ورک اسکے اختیاری مضامین تھے، مزار جان اور میں سوشل ورک کے کلاس میں ساتھ ساتھ جاتے تھے اور کلاس سے فارغ ہونے کے بعد لائبریری کے نیچے جا کر بیٹھ جاتے تھے. تنظیمی مزار اور عام زندگی کے گنجل میں بہت فرق تھا. عام زندگی میں خاموش طبع لیکن جب بات تنظیمی ہوتی تو ہمیشہ تنظیم کا دفاع کرتا چاہیے علمی حوالے سےاس کے سامنے تجربہ کار شخص بھی ہوتا.
ایک محبت کرنے والا دوست، ایک درد رکھنے والا انسان، کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ وہ تنظیمی کاموں کی وجہ سے کلاسز نہیں لے پاتا تو کلاسز ختم ہونے کے بعد مجھے میسج کرکے بلاتا کہ آجاو لائبریری کے نیچے، جب میں چلا جاتا تو دو دو گھنٹے بٹھاتا لیکن بات کرنے کے بجایے موبائل پر لگا رہتا، ایک ہفتہ اسی طرح گزر گیا میں نے اسے پوچھا یار کیا مزاق ہے مجھے بلاتے ہو دو دو گھنٹہ میرا زوال کرتے ہو نہ بات کرتے ہو اور نہ کچھ بولتے ہو. تو اس کا جواب ہوتا کہ یہ محبت ہے ان پلوں کا لطف اٹھانا چاہتا ہو کہ پھر دوبارہ موقع ملے یا نہ ملے، اس کی ان باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کل وقتی کارکن تھا جس نے بی ایس او سے فراغت کے بعد اپنے مستقبل کے جہد کے ھوالے مسلح آرگنایزیشن میں کام کرنے کا زہن تیار کیا ہوا تھا لیکن اس وقت مجھے اس کے باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی.
ایک مرتبہ زونل دورے کے دوران ایک دوست سے پوچھ رہا تھا کہ کونسی کتاب پڑھتے ہو تو وہ دوست کہنے لگا کہ مجھے پڑھنا نہیں آتا لیکن میں پڑھنا چاہتا ہو تاکہ اپنے تنظیمی لٹریچر پڑھ سکو تو مزار جان نے اس سے کہا کہ پڑھو اور تنظیم اور تحریک کے لیے کام کرو. مزار جان کی نصیحت تھی کہ وہ دوست زیادہ تو نہ پڑھ سکا لیکن اس نے میٹرک تک تعلیم ضرور حاصل کی.
کسی دوسرے دوست سے کہا کہ تم کیا کرتے ہو تو اس نے کہا کہ مزدور ہوں مجھے پڑھنا نہیں آتا تو مزار جان نے اس دوست کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تم جیسے دوست ہی تحریک کو ایندھن فراہم کرتے ہیں. مذید کہا کہ کراچی جیسا شہر جہاں ریاست نے بلوچوں پر تعلیم کے دروازے بند کرکے منشیات اور گینگسٹرز تحفے میں دئیے ہو وہاں اس پسماندہ علاقے میں بی ایس او کی نمائندگی کرنے والے دوستوں کی جدوجہد ہماری طاقت ہے. یہ مزار جان کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ آج تک وہ دوست تحریک کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں.
سنہ 2015 کونسل سیشن میں مرکزی کمیٹی کا ممبر منتخب ہوا اس وقت یونیورسٹی کو خیر باد کہہ دیا اور تنظیمی دوروں میں مصروف رہا، بہت کم ملاقات ہوتی تھی لیکن کبھی بھی ملاقات ہوتی تو سوال تنظیم، تربیت، کتاب، ممبران، تحریک ہی ہوتی.
نومبر 2017 کو جب بی ایس او کے جنرل سیکرٹری اور دیگر مرکزی کمیٹی کے ممبران کو لاپتہ کردیا گیا تو پھر مزار سے ملاقات نہ ہوسکی.
کونسل سیشن 2018 کو ملاقات ہوئی، اس کونسل سیشن میں وہ تنظیم سے فارغ ہوا تو کسی تنظیمی ممبر سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ شکر ہے پروردگار کا کہ بھگوڑا نہیں بنا.
ستمبر 2018 میں اس سے آخری ملاقات ہوئی کیونکہ اس وقت وہ بلوچ قومی تنظیم بی ایل اے میں شمولیت اختیار کرچکا تھا، 2018 کے آخر میں قلات کے شورپارود کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنالیا اور اپنی زندگی کے آخری سانسوں تک گلزمین کا دفاع کرتا رہا.
کبھی کبھی فون پر بات ہوتی تو موضوع صرف تنظیم اور تحریک ہوتا ہاں کبھی کبھی مزار جان اپنے شعر سناتا تھا وہ شعر تو مجھے یاد نہیں لیکن اسکی آواز اور اشعار میں ایک جنگجو کی جھلک دکھائی دیتی تھی.
ستمبر 2021 کو ایک آپریشن میں اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگیا اور آخری دم تک وطن کی حفاظت کو اپنے فرض سمجھ کر لڑتا رہا. دو فروری 2022 کو جب آپریشن گنجل شروع ہوا اسکے تنظیم کی جانب سے بیانات کے ذریعے معلوم ہوا کہ. شہید مزار جان خود کو فدائی کے لئے منتخب کرچکا تھا اور اسے ان آپریشنز میں کمانڈ کرنا تھا تو اسکے باتوں کا مطلب سمجھ آگیا کہ یہ محبت ہے. یہ موقع دوبارہ نہیں ملے گا کہ دوستوں کی محفل سے لطف اندوز ہوا جائے، واقعی وہ عاشق تھا سرزمین کا سچا عاشق، جو لیاری کے گینگسٹر ماحول سے نکل کر سرفروش بن چکا تھا.
مختصر مزار جیسے کارکن اور کمانڈر قوم کے ماتھے کا جھومر ہے جن کی جدوجہد ایک مثال ہے، ہم دنیا میں چی، کاسٹرو، و دیگر لیڈروں کی مثالیں پیش کرتے ہیں لیکن ہماری سرزمین بالاچ، اسلم، بلامری، و مزار جیسے نرمزاروں کی سرزمین ہے جہاں ظالموں کی کوئی جگہ نہیں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں