کتاب عصر آواز ۔ ظہیر بلوچ

564

کتاب عصر آواز

تبصرہ: ظہیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کتاب آواز عصر ارشد محمود کی لکھی گئی کتاب ہے. مصنف نے 158 صفحات پر مشتمل کتاب مختلف مضامین کو یکجا کرکےتصنیف کیا. عصر آواز کی دوسری اشاعت 2019 کو فکشن ہاؤس لاہور کے زیر انتظام ہوئی.

مصنف اس کتاب میں پاکستانی معاشرے میں پنپنے والی فرسودہ روایات، رسم و راوج اور مذہبی غلبہ کو بیان کرتے ہیں، اس کتاب کےمطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کس طرح پاکستانی معاشرے کو مذہب کے رنگ میں ڈھال کر انسانی ذہن کو مفلوج بنادیا گیا ہے اوراپنے ذاتی مفاد کے لئے ہندو دشمنی کا راگ الاپ کر عوام کے ذہنوں میں ہندو اور ہندوستانی دشمنی کو فٹ کردیا گیا ہے. دراصل یہ کتاب ان پاکستانی عوام کو آئینہ دکھاتاہے جو اسلام کو مکمل ضابطہ حیات اور پاکستانی فوج کو اسلام کا محافظ بنا کر پیش کرتےہیں.

اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سے منسوب کرنے والے جدید دنیا اور جدید تہذیب کے مرتب کردہ انسانی حقوق سے متصادم رویہ رکھتے ہیں. صفحہ نمبر 17 میں مصنف کہتے ہیں کہ اسلام غلامی کو حرام قرار نہیں دیتا، تمام اسلامی تاریخ میں غلام اور لونڈیاں موجود رہی ہیں، ان کی تجارت اور خرید فروخت ہوتی رہی ہے. مغربی تہذیب کو برا سمجھتے ہیں اور اپنے عوام کو میوزیم اور لائبریریوں سے دور رکھ کر مساجد، درگاہ اور مزار کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں. نصف آبادی کو گھر میں بٹھا کر بچے پیدا کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہیں۔

جس مدینہ ریاست کو مثال بیان کر عوام کو لال بتی کے پیچھے لگایا جاتا ہے اسکے متعلق مصنف کہتے ہیں کہ وہاں قبائلی عصیبت کایہ عالم تھا کہ ہر قبیلے کی الگ مسجد تھی اور وہ جدا محلوں میں رہتے تھے ان کے سیاسی نظام میں اختلاف رائے کی گنجائش نہ تھی. اپنے اقتدار کی خاطر لڑائی جھگڑے معمول کی بات تھی اور اقتدار کی خاطر انہوں نے دین کو کبھی خاطر میں نہ لایا. صفحہ نمبر 47 میں ان عیسائیوں کے بارے میں کہتے ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا. جب انہوں نے مسلمانوں کے درمیان یہ اختلافی صورت حال دیکھی تو کہنے لگے اس سے بہتر وہ دین تھا جس کو ہم نے چھوڑا تھا. یہ کیسا دین ہے جو آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانے سے نہیں روکتا اور نہ ایک دوسرے کا مال چھیننے سے روکتا ہے.

عقیدہ انسانی کے متعلق صفحہ نمبر 70 میں کہتے ہیں کہ عقیدہ انسانی تہذیب میں اس وقت شروع ہوا، جب انسان اپنے شعور کی ابتدائی حالت سے گذر رہا تھا. وہ اس کی سادہ لوحی کا زمانہ تھا. اسے فطرت کی ناموافق زور آور قوتوں کا سامنا تھا اور وہ ان کےسامنے بے بس و کمزور تھا. چنانچہ اسے نفسیاتی سہارے کی ضرورت تھی، مذہب نے انسان کا ایک اور نفسیاتی مسلہ حل کیا.

کتاب کے صفحہ نمبر 77 سے لے کر 102 تک ایران کے ایک انقلابی خواتین فروغ فرح زاد کا ذکر ہے جو ایرانی قدامت پرست معاشرےمیں جنم لیتی ہےلیکن معاشرتی بندھنوں کے خلاف عمل کرتی ہے. جس کی وجہ سے اسے ہر جگہ دکھ و تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اس نے گھر کی چار دیواری اور مرد کا ترنوالہ بننے کے بجائے آزادانہ زندگی گزاری، اس کے امیج کو متاثر کرنے کے لئے اس کیشخصیت اور شاعری کے مثبت پہلوؤں کو قاری کی نظروں سے اوجھل کیا گیا.

فروغ فرخ زاد اتنی آزاد خیال اور مقصد سے محبت کرنے والی تھی کہ جب اسے طلاق ہوئی تو اس نے اپنے بچوں کو باپ کے پاس رہنےدیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ جن راہوں کا سفر اختیار کرچکی ہے وہاں بچے کی پرورش کی ذمہ داری اٹھائی نہ جاسکے گی.

پدر شاہی نظام کو عورت کے استحصال کا ذریعہ قرار دیتی تھی.
مرد براہ راست نہیں کہہ سکتا کہ وہ عورت کو غلام رکھنا چاہتا ہے لہذا وہ اخلاقی اقدار کا سہارا لیتا ہے. لہذا جو بھی عورت بلاسمجھوتہ اپنے حقوق اور آزادی کا پرچم بلند کرے گی اسے آوارہ اور مغرب زدہ قرار دیکر سماج میں بیداری کے عمل کو روک دیا جاتاہے.

صفحہ 94 ادب کے متعلق کہتی ہے کہ میں اپنی استقلالی قوت سے اپنے حصے کا فرض ادا کر جاؤ نگی. فن کو گلے سڑے حالات سے نکالنے اورزندہ رہنے کا حق ہر ایک کو دلانے میں. خاص طور پر عورتوں کو یہ جرات دے جائے گی کہ وہ اپنے جذبات اور پوشیدہ جبلت پر پڑےپردوں کو ہٹاسکیں. وہ اس قابل ہوسکیں کہ اپنے دل کی بات الجھن اور خوف کے بغیر کہہ سکیں کہ دوسرے لوگ کیا کہیں گے.. آزادی نسواں کے حامی اور عورت کی غلامی کی مخالف جو کہتی ہے کہ عورت کی عصمت کی ٹھیکیداری مردوں کو نہیں دی جاسکتی.

ارشد محمود کے مطابق شہاب الدین غوری، محمود غزنوی، ابدالی جیسے قاتل اور لوٹ مار کرنے والے پاکستانی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ہیروز ہیں۔ ان کی آئیڈیالوجی کاپی پیسٹ پڑھایا گیا، سنا اور بتایا گیا جبکہ 65 کی بھارت جنگ کو فتح سمجھتے ہیں حالانکہ اس جنگ میں بھارت نے 18000 مربع کلومیٹر پر قبضہ کیا تھا.

مختصر اس کتاب میں پاکستانی عوام، پاکستانی سیکورٹی اداروں کے چہرے سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ کس طرح مذہبی انتہا پسندی کو عام کیا گیا اور عوام کے ذہنوں میں ہندو دشمنی کے نعروں کو پیدا کیا گیا ہے.

اختتامیہ.
کتاب آواز عصر مضامین کا مجموعہ ہے جو اسلامی معاشرے خاص کر پاکستانی معاشرے کی فرسودہ روایات پر بحث کرتا ہے. لوگوں کے ذہن کو فتح کرنے کے لئے اسلام کو ایک ڈھال بنا کر معاشرے میں ترقی پسندانہ روایات کو پاوں تلے روند دیا گیا ہے اور معاشرے کوجامد بنا کر اسے ریموٹ میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں ملا ملٹری الائنس کے گٹھ جوڑ کے ہاتھوں میں ریموٹ کا بٹن دیا گیا ہے جو اپنےمفاد کے لیے آن آف کا کھیل کھیلتے ہیں. اس طرح مقتدرہ نے ہندو دشمنی، انڈیا دشمنی میں ایسے تاویلات پیش کرکے لوگوں کےذہنوں میں ہندو دشمنی کا بیچ بودیا ہے اور اسکی خاص وجہ انڈیا دشمنی پر منحصر ہے.

سیکورٹی فورسز جن کا کام کسی بھی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرکے انہیں محفوظ بنانا ہوتا ہے لیکن پاکستانی معاشرے کی مائی باپ یہی سیکورٹی ادارے ہیں جو شدت پسندی کو پروان چڑھا کر، جہاد کے نام پر لوگوں کے ذہن کو گمراہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں جن کے ہیرو محمود غزنوی، محمد بن قاسم، شہاب الدین غوری جیسے لٹیرے اور جنگجو ہیں۔

اس کتاب کی اہم بات ایرانی انقلابی خاتون فرح فرخ زاد ہے جس نے ادب اور حقوق نسواں کے لئے بے شمار مصیبتوں کا سامنا کیا اورحکمران وقت اور معاشرے کی غلاظت کو بے نقاب کیا.

مختصر یہ کہ اس کتاب کا مطالعہ ان لوگوں کے لئے ضروری ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیکورٹی ادارے مقدس گائے کادرجہ رکھتی ہے اور اسلامی فوج ہے جو اسلام کی بقاء کے لئے بنی ہے لیکن انہیں اس فوج کی کرتوتوں کا علم نہیں جو جہاد کے نام پر پیسے بٹور کر عوام کا خون چوس رہی ہے. اس سوچ پر صرف ماتم کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان مدینے کی ریاست بن کر دنیا کیخلافت اور امامت کا فرض پورا کریں گی. جس طرح آج عمران خان حکومت مدینے کی ریاست کا چورن بیچ کر عوام کا جنازہ نکالنےکی تیاری کررہا ہے جو مدینے کی ریاست آپسی مخاصمت اور دشمنی کی وجہ سے انہدام کا شکار ہوگئی.

جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کے ٹکڑے کئے گئے آج وہی دو قومی نظریہ پانچ قومی نظریات میں تبدیل ہوگیا ہے اور یہ نظریات حقیقت پر مبنی ہےجنہیں نظر انداز کرکے بلوچ، سندھی، پختونوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور پنجابی قوم کو فاشزم کی طرف لیکر جارہی ہے اوراس کا ذمہ دار عسکری ادارے ہیں جن کے ہاتھ میں اس ریاست کی ڈور ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں