چلو اس کی بندوق سے تعزیت کر آئیں! ۔ محمد خان داؤد

386

چلو اس کی بندوق سے تعزیت کر آئیں!

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اسے معلوم تھا کہ محبت کے سفر میں جوتیاں نہیں پہنی جاتی، وہ پہاڑوں پر ننگے پیر رہتا اور پتھر آگے بڑھ کر اس کے پیروں سے اُلجھ جاتے، وہ پیروں میں آئے پتھروں کو سُلجھاتا رہتا، پتھر اس کے پیروں کا لمس محسوس کرتے اور وہ پہاڑوں سے نیچے اُتر جاتا کسی محبت کی مانند، وہ ایک جوگی تھا محبت کا جوگی اور اس کی گودڑی میں محبت بھری رہتی ہمہ وقت، اسے خبر تھی کہ آنکھوں اور دئیوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا یہ دونوں سوگ میں ہوتی ہیں، روگ میں ہو تی ہیں اور سدا کے لیے جلتی رہتی ہیں اس کی آنکھیں بھی دھرتی کی محبت میں سوگ بن کر دئیے کی مانند جلا کرتی تھیں، جب بھی پہاڑوں کے اس پار سورج ڈوبنے لگتا وہ سُرخی اس کی آنکھوں میں بھر جاتی اور وہ سورج کو کہتا ”میں یہ سُرخی دیس کی آزادی پر تمہیں واپس کروں گا شکریہ کہ تم زوال کے دنوں میں میری آنکھیں سُرخ رو کر جاتے ہو“
اور وہ سوچتا تھا میری یہ آنکھیں سورج ہیں بھلے مختصر ہی صحیح!
وہ دھرتی کے خیال میں رہتا،آزادی کے گمان میں رہتا!
فروری اس کا ماہ ہے جس میں اس کی ماں اور محبوبہ اسے یاد کریں گے
اور وہ پہاڑوں پر محبت کی بارش بن کر برسے گا!
وہ جو اپنی محبوبہ کو ایسی سطر لکھا کرتا تھا کہ
”تم پازیب اُتار کر دل میں اترا کرو
تمہا ری پازیب میرے دل میں لرزہ پیدا کر دیتی ہے“
وہ دھرتی سے بہت دور آکاش میں تارہ بن کر چمک رہا ہے جس تارے کو دیکھ کر نجومی محبت اور آزادی کی پیشن گوئیاں کرتے ہیں
وہ اپنی محبوبہ کو ایسی باتیں بھی لکھا کرتا تھا کہ
”یہ تمہاری آنکھیں ہی ہیں جن سے آزادی کے تمام راستے گزرتے ہیں
تم بہت پیاری ہو
پر سنو آزادی اور دھرتی تم سے اُتم ہے“

وہ جو پہاڑوں کے اس پر اپنی جگی میں آزادی اور محبت کے دئیے جلائے رکھتا تھا جب ہوا چلتی تو ہواسے مخاطب ہوکر کہتا،اے ہوا تم تمام دئیے بجھا سکتی ہو پر دل میں جلا محبت اور آزادی کے دئیے نہیں بجھا سکتی۔

اسے یقین تھا جب تک آکاش پر تارے چمکتے رہیں گے،پتھروں پر بارش برستی رہے گی اور درختوں سے پتوں کے گرنے کی آواز آتی رہے گی آزادی کا نغمہ بجتا رہے گا۔

وہ بوسہ کے خمار سے نکل کر دھرتی کے عشق میں داخل ہو چکا تھا!
وہ کہتا تھا”میرے وجود کو جلا کر بھسم کر دو،میں ہواؤں میں آزادی کے گیت اُڑاؤں گا“
وہ عشق میں جل گیا پھر بھی اس کے آزادی کے گیت ہواؤں میں اُڑ رہے ہیں
آج لوگ ہی نہیں دھرتی اسے تلاش رہی ہیں اور کہہ رہی ہے میں اس شخص کو تلاش رہی ہوں جو دھرتی پر میرے لیے اترا تھا
اور دھرتی اسے کہہ رہی ہے”تم ضرور آؤگے اس لیے اپنے آنسوؤں اور سرخ گلابوں کے ہار تمہا رے لیے بنا رہی ہوں“
عاشق اور شہید لوٹ آتے ہیں
وہ شہید بھی ہے اور عاشق بھی!
گلاب اور سُرخ اور خوشبو سے بھر جاتے ہیں جب دھرتی کے لال دھرتی پر قربان ہو جاتے ہیں
جب وہ دھرتی پر قربان ہوا تو تمام پہاڑوں پر کھلے گلاب سر خ بھی ہو گئے اور خوشبو سے بھی بھر گئے!
اور وہ سرخ خوشبو سے بھرے گلاب آپس میں کہنے لگے
”آنسوؤں اور شبنم میں فرق تو بتاؤ!“
اس وقت وہ سرخ گلاب گیلے گیلے تھے پتھر اور پہاڑ جانتے تھے کہ یہ اوس نہیں پر آنسو ہیں اس شہید کے لیے جو شہید ان پھولوں کی نئی زندگی دے گیا ہے،
وہ جو کہتا تھا ”مجھے اپنے محبوبہ کی آغوش میں جانا ہوگا جب سب کے لیے مر جاؤں گا فنا ہو جاؤں گا تو محبوبہ کے لیے جنم لوں گا“اور اس کی محبوبہ دھرتی تھی!
اب آپ ہی بتائیں جب وہ اپنی بہانوں میں دھرتی کو لیے سو رہا ہے تو کیا وہ مر گیا ہے؟
وہ جو کہتا تھا”پہاڑوں کے دامن میں کچے گھر کے صحن میں اماں آکاش پر چمکتے تاروں کی طرف اشارہ کر کے کہتی تھی”تم وہاں تارا بن کر چمکو گے!“
ہاں اب وہ آکاش پر تارا بن کر چمک رہا ہے اور اس کی اماں اسے وہاں سے دیکھ رہی ہے جہاں وہ ہر روز ایک روٹی زائد بنا کر ان پرندوں کو دیتی ہے جو کہاں سے آتے ہیں کہاں جا تے ہیں
نہیں معلوم!
پر وہ ماں جانتی تھی کہ وہ وہاں سے آتے ہیں
جہاں وہ ہے
اور وہاں جاتے ہیں جہاں وہ ہے!
وہ بھی بارشوں میں بے تاب ہوکر نہاتا اور دوست اس سے پوچھتے کہ تم بارشوں میں بے تاب کیوں ہو جاتے ہو؟
تو وہ جواب دیتا بارشیں وہاں سے پانی لیتی ہیں جہاں اماں اور محبوبہ سر پر گھڑا رکھ کر پانی بھرنے جاتی ہیں تو یہ محبت کی بارش ہے بہت بے چین کرتی ہے
وہ جو کہتا تھا”اگر رو رو کر بہن کے دوپٹے سے آنسو صاف کیے جائیں اور بہن کے دوپٹے کو گیلا کرنے سے آزادی ملتی تو پہاڑوں پر پڑے پتھر کبھی لہو سے لال نہ ہوتے!“
وہ ایک آرٹسٹ سرمچار تھا
شاعر تھا
دھرتی کا بیٹا تھا
عاشق تھا
اور اب شہید ہوا ہے
وہ دھرتی پر وارا گیا ہے اے دوست چلو اس کی بندوق سے تعزیت کر آئیں!