پیگاسیس سافٹ ویر ایک خطرناک آلہ ۔ زیردان بلوچ

485

پیگاسیس سافٹ ویر ایک خطرناک آلہ

زیردان بلوچ           

دی بلوچستان پوسٹ

تعلیم اور ہنر (ٹیکنیکل) دو متضاد چیز یں ضرور ہیں لیکن دونوں کا تعلق انسانی عقل آرائی و عقل پروری سے ہے اور یہ کہ ہم کہاں تک پیچیدگیوں اور مشکلات کو سمجھ کر گامزن ہوتے ہیں کیونکہ ہر نوعِ بشر سیکھنے اور سکھانے کی عمل سے گزر رہا ہوتا ہے اور ہمیں گزرنا ہوگا کیونکہ ہر کوئی عقل منفعل سے ہمکنار نہیں،

آتے ہیں اپنی نقاط کی طرف جس کو بیان کرنا اہم سمجھتا ہوں اور وقت کی ضرورت۔ میں نے اس بارے مطالعہ کیا اور سجھنے کے بعد کچھ معلومات کو تحریری شکل دے کر پڑھنے والوں تک پہنچانے کی عندالضرورت کو محسوس کیا۔

دوستوں آپ لوگوں کو معلوم ہوگا ٹیکنالوجی (سائنس) بہت تیزی سے ترقی کرتا چلا جا رہا ہے ، اس بات کا ہر ایک کو بخوبی علم ہے۔ ہم آتے ہیں موبائل فون کی طرف اور بات کو آگے لے جاتے ہیں  تاکہ ہمیں علم ہو موبائل فون رابطہ کاری تک تو بہترین شے ہے لیکن وقت اور حالت کے مطابق اِن موبائل سروسز (ٹیکنالوجی) نے ترقی یافتہ ممالک کو شش و پنچ میں مبتلا کر رکھا ہے،

موبائل فون کے استعمال کع آج کے دور میں یہی سمجھنا ہوگا کہ خود کو مخالفین کے نظروں کے سامنے رکھ دینا یا آگے والے شخص کو آسانی سے خود تک رسائی دینا، اور وہ چاہے آپ کے خلاف کس طرح کا ایکشن لے، لے سکتا ہے ، میں صرف ایک سافٹ ویر کے بارے بتانے کی کوشش کرونگا، اس سافٹ ویر نے ملکی عہدے داروں کو کس طرح اپنا شکار گیر بنا کر انہیں ذہنی امراض میں مبتلا کر دیا ہے۔

اس جاسوس سافٹ ویر کو ہم پیگاسیس سافٹ ویر کے نام سے جانتے ہیں، اسکا کام مخالف فریق کے موبائل فون پر صرف ایک پیام یا مسڈکال کی شکل میں موبائل کے اندر گھس کر جزجز میں اپنا جگہ بنانا ہے، اور آپ کی بے خبری میں متحرک ہوتا ہے، اور اپنا کام شروع کر دیتا ہے اس کا اصل ٹارگٹ ہوتا ہے مخالف کی فون کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کے ساتھ اپنے وجود کو برقرار رکھنا جب تک یہ موبائل قابل استعمال رہا وہ متحرک رہے گا۔

اس جیسے سوفٹ ویر کے زریعے لوکیشن کی معلومات حاصل کرنا عام سی بات ہے جہاں آپ متحرک ہیں وہ وہاں کا ایک ایک ریکارڈ جمع کرتا رہے گا، کیونکہ پیگاسیس سافٹ ویر ایک خطرناک جاسوس ہے وہ بہ یک وقت ڈیٹا سمیت آپکے موبائل کی کیمرے پر اپنی گرفت حاصل کر پاتا ہے، کیونکہ یہ جاسوس آپکی Spy) ware) کا پاس ورڈ حاصل کرکے اپنی مطابق سرچ کرنے کی جاندار اختیار حاصل کر لیتا ہے۔
جس کی وجہ سے کئی ملکی سربراہان خود کو اس سافٹ ویر سے محفوظ نہیں سمجھتے ہیں، اور آج یہ سافٹ ویر عام ہو چکا ہے۔ جن ملکی ایجنسیوں نے چاہا اسے خرید لیا ہے اور اپنے مخالفین شخص یا گروہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے انہیں موثر ہتھیار سمجھتے ہیں۔

اگر ہم دور حاضر میں بلوچ جدوجہد اور قابض ریاست کی بات کریں تو وہ ہم تک ایسے کئی جاسوس سوفٹ ویروں کے زریعے با آسانی رسائی حاصل کر پاتا ہے اگر ہم ایسے حربوں کو سمجھتے ہوئے عمل سے دور رہیں اس کے خطرناک نتائج کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

جہاں تک کہ میری معلومات ہے دوہزار پندرہ میں قابض ریاست نے آواران وہلی کے مقام پر میزائل داغے تھے اور ریاست کی رسائی کی بڑی وجہ یہی سوفٹ ویر جاسوس ہونگے اگر طریقہ کار میں فرق ہو لیکن ایسے حملوں کے پیچھے ٹیکنکل ٹیم سرگرم عمل رہتا ہے اور اس کو کنٹرول کرنا آئی ایس آئی کی زمہ داری ہوتی ہے۔

رواں ماہ میں ایسے دو یا تین حملے ہو چکے ہیں شواہد سے یہی معلوم ہوا تھا ریاست نے ڈرون استعمال کرکے حملے کئے تھے اور بلوچ تحریک کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑا تھا کیونکہ اس بات کو ہم مانتے ہیں گوریلہ سپاہی اتنا باخبر ہو کر دشمن پر حملہ کرے کہ ایک گوریلہ کی جان کی قیمت دشمن کی سو سپاہی سے زیادہ اہمت کا حامل ہے یہ بات غور و فکر کی ہوگی کہ ہم کس طرح اپنی قیمتی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے۔

ان حملوں کے پیچھے جاسوس جیسے سوفٹ ویر کے استعمال سے انکار کرنے سے ہماری نقصانات حد سے بڑھ کر بعد ہمیں مجبوراً قبول کرنے ہوں گے اور سافٹ ویر جیسے خطرناک ہتھیار سے بچنے کیلئے حکمت عملیاں بنانے کی ضرورت وقت کی اشد ضرورت ہے۔

بہتر یہی ہے اور ہماری زمہ داری بنتی ہے اداروں کے پاس ایسے متحرک ٹیم ورک ہو جنہیں سافٹ ویر جاسوس جیسے خطرناک شے کے بارے میں علم و آگاہی ہوں جنہیں کارگر عمل لاکر جہدکاروں کو باخبر کر دیں۔

کیونکہ آج دشمن ٹیکنالوجی کا سہارہ لے کر کامیاب حملوں کے پیچھے اپنی نظریں جمائی ہوئی ہیں اس حقیقت سے انکار بڑی تباہی سے کم نہیں ہوگی اگر ہمارے جہدکار گراؤنڈ کی نزاکت، حالات کو سمجھنے سے قاصر رہیں یا دیر کر دیں، کیونکہ ایسے حملوں کے پیچھے لازمی نہیں سم چپ یا لیزر کار فرما ہوں اس جدید دور میں ایسے بہت سے آلہ اپنا وجود رکھتی ہیں، جس کے زریعے آپ کی بند فون سے بھی آپ تک رسائی ممکن ہو سکتی ہیں۔

اس بات سے ظاہر ہوتا ہے موبائل سروس کی وجہ سے دشمن اپنا ہدف بآسانی حاصل کر پاتا ہے ، موبائل فون کے بے دریغ استعمال یا خود کو لوکیشن میں رکھنے کی وجہ سے دشمن اپنے محفوظ مقامات پر بیٹھ کر جہدکاروں کو آسانی سے ٹارگٹ کر سکتا ہے۔

یہ زمہ داری تنظیمی پالسی ساز اداروں پر لاگو ہوتی ہے وہ جہدکاروں کو کس طرح کا محفوظ سمت دینے میں کامیاب ہوتے ہیں جہاں سرمچار اُس سمت پر چل کر خود کو محفوظ کر سکیں، جہاں تک میرے علم و رائے ہے  موبائل فون کے متبادل شے پیدا کیا جائے اور رابطہ کاری کے عمل میں درستگی کے ساتھ اصلاح لانے کی ضرورت ہے۔

وقت حاضر میں ڈرون حملوں کے بارے میں باقاعدگی سے تربیت دی جائے اور انکے حملوں کو ناکام بنانے کے توڑ نکال کر جہدکاروں کو  معلومات فراہم کرکے پابند کیا جائے، کیونکہ ایک کی بے پرواہی سے پورے دستے (بٹالین)  کو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں