لاپتہ افراد کی بازیایی کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4603 دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے زونل صدر شکور بلوچ اور ساتھی، این ڈی پی کے مرکزی رہنما رشید بلوچ، عبدالغنی بلوچ انسانی حقوق کے ایکٹوسٹ حمیدہ نور نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قومی سوال ایک تاریخی اور حل طلب مسئلے اور بلوچ لاپتہ فرزندوں کا مسئلہ بھی اس سوال سے جڑی ہوئی ہے جبری الحاق اور قبضے کے بعد سے بلوچ قوم کی زندگی اس ریاست نے اجیرن کر دی ہے کیونکہ بلوچ قوم نے اس جبری قبضے کے خلاف مسلسل جدوجہد کی ہے بلوچ فرزندوں کو جبری لاپتہ کرنے کا سلسلہ بھی اسی دن سے شروع ہوا اور پھر 1977 تک پاکستانی ریاست نے فوجی آپریشن کر کے ہزاروں بلوچوں کو شہید لاپتہ کر دیا موجودہ صورت حال 2000 سے تاحال جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں بمباری اور آپریشن سے اب تک ہزاروں بلوچ شہید کر دئے گئے ہیں تقریباً ڈھائی لاکھ کے قریب مختلف علاقوں سے وحشتناک بمباری کی وجہ سے بلوچ اپنے گھر بار کھیت کھلیاں چھوڑنے پر مجبور کر دئے گئے جو اب تک سندھ اور دیگر علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ریاست پاکستان اور اُس کی ایجنسیوں کا بلوچ قوم سے نفرت کا اس سے بڑا ثبوت کوئی نہیں ملتا پاکستانی حکمران اور پاکستانی ریاستی ادارے اور ایجنسیاں 72 سالوں سے بلوچ قوم کی شعوری توہین کر رہے ہیں اور بلوچ قوم کی نسل کشی بھی مسلسل جاری ہے۔