پاؤں زخمی سہی، ڈگمگاتے چلو
تحریر: ظریف رند
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں جاری جبر و استحصال، سامراجی لوٹ کھسوٹ، لاپتہ افراد کی بازیابی اور منشیات کے پھیلاؤ کیخلاف عَلم بغاوت بلند کیئے ہوئے نوجوان سیاسی و سماجی کارکن گلزار دوست 27 فروری کو ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے پیدل لانگ مارچ کرتے ہوئے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی جانب رختِ سفر باندھے گامزن ہیں۔ جوکہ اب تک سات دنوں میں قریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر سے اوپر کا فاصلہ طے کرکے ضلع کیچ کی حدود سے نکل کر ضلع پنجگور میں داخل ہو چکا ہے۔
گلزار دوست تربت سیول سوسائٹی کے کنوینر ہیں اور انہوں نے یہ فیصلہ تربت سیول سوسائٹی کی طرف سے لیا ہے۔ انہوں نے اس سفر کو تنہا عبور کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے جبکہ سیاسی کارکنان اور مقامی لوگ انکا استقبال کرکے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک انکے ساتھ چل رہے ہیں۔
پیدل لانگ مارچ کے آغاز پر انہوں نے ننگے پاؤں چلنا شروع کیا مگر سیاسی حلقوں کی شدید اصرار پر اور خواتین کی خصوصی مداخلت سے تقریباً تیس کلو میٹر کے بعد انہیں جوتے پہنا دیئے گئے۔
بلوچستان کی جدید سیاسی تاریخ کا یہ دوسرا طویل پیدل لانگ مارچ ہوگا۔ اس سے پہلے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ماما قدیر، فرزانہ مجید اور علی حیدر نے دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ کوئٹہ سے کراچی ہوتے ہوئے اسلام آباد تک پچیس سو کلو میٹر پیدل مارچ کیا تھا۔
احتجاج کے ان انتہائی صورتوں کو اختیار کرنے کے بنیادی اسباب اربابِ اختیار کی بے حسی اور بلوچ دشمن پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے قومی محکومی کیخلاف اٹھنے والی آوازیں کبھی کسی شکل میں سر اٹھا لیتی ہیں۔ اسی سلسلے میں سنگت گلزار دوست بھی اپنے قومی و جمہوری حقوق کو استعمال کرتے ہوئے منزل کی جانب گامزن ہے۔
گلزار بلوچ جس راستے پر سفر کر رہا ہے یہ انتہائی دشوار گزار اور مشکل راستہ ہے جہاں دور دور تلک کوئی آبادی نہیں ہے اور راستے میں بمشکل کوئی تالاب یا پانی کا چشمہ موجود ہو۔ بھوک، پیاس یا بیماری کی صورت میں انکی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جس کیلئے حکومت کو کم از کم ایک ایمبولینس فراہم کر لینا چاہیئے تھا مگر ستم تو یہ ہیکہ احساسِ بے حسی بھی نہیں۔
یہ راستہ طویل سیاہ مار سڑک ہے جو گلزمین کی قلعہ نما پہاڑوں کی حصار میں ہے جن کی چوٹیوں پر جگہ جگہ چوکیاں بنی ہوئی ہیں جوکہ وحشت کی علامت ہیں۔
ان سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے ایک عجیب سی خوف کا عالم طاری ہو جاتا ہے کیونکہ انہی راستوں پر سینکڑوں نوجوان مسخ کرکے پھینکے گئے ہیں اور سینکڑوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا ہے۔
خوف و ہراس کی عالم کو اگر کوئی شے کم کرتی ہے تو وہ دھرتی ماں کی ممتا اور یہ ماں جیسی پہاڑی ہیں جن کی آغوش میں گلزمین کے فرزند پناہ و راحت محسوس کرتے ہیں۔
گلزار قدم بہ قدم وطن کی مٹی سے اپنے پاؤں سینکتے ہوئے چل رہا ہے اور ساتھ ٹوٹے ناخنوں و آبلے پاؤں کی پیپ و لہو سے ایک تاریخ لکھ رہا ہے۔
اس تاریخی مسافت میں وہ ہزاروں لاپتہ نوجوانوں کی بازیابی کی صدا بلند کیئے ہوئے ہے۔ اور ان راستوں کو وحشتناک بنانے والے سیکیورٹی فورسز کی بے لگام بندوقوں کو لگام ڈالنے کی فریاد کر رہا ہے۔
یہ راستے جن پر فرزندانِ وطن کو سفر کرتے جگہ جگہ اپنی شناخت ثابت کرنا پڑتی ہے ان پر موت کے سوداگر منشیات فروش آزادی کیساتھ ٹَنوں کے حساب سے موت کا سامان گزار کر بلوچستان کو نرَک بنانے کیساتھ اسی راستے سے دنیا بھر میں بھی یہ زہر پھیلاتے ہیں۔ اس مہلک زہر کو روکنے کیلئے گلزار دوست نے پیدل مارچ کرکہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کا عزم کیا ہوا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو منشیات کی لعنت سے محفوظ رکھا جا سکے۔
مادر گلزمین جسکی بطن سے جَنے فرزندوں کیلئے ان کے اپنے وسائل پر ملکیت کا دعویٰ حرام بنا دیا گیا ہے مگر سامراجی قوتیں بلا روک ٹھوک اسکے وسائل لوٹ کر زمین کا ناجائز استحصال کر رہے ہیں۔ اس لوٹ کھسوٹ اور استحصال کو روکنے کیلئے گلزار دوست چل پڑا ہے تاکہ سامراجی لوٹیروں کو باور کروا سکے کہ بلوچ ہر قدم اور ہر محاز پر لوٹ کھسوٹ کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے اور دھرتی ماتا کی لوٹ کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائیگا۔
زخمی پاؤں اور جوان حوصلوں کے ساتھ سنگت گلزار روشن مستقبل کی چاہت دل میں لیئے آگے بڑھ رہا ہے تو اس سفر میں دیہاتوں میں موجود کسان و چرواہے بڑے جوش و جنون کے ساتھ اسکا استقبال کر رہے ہیں۔ نام نہاد شہری مہذب لوگ ان دیہاتی لوگوں کو لاشعور اور جاہل تصور کرتے ہیں مگر حقیقی معنوں میں جس شعوری بلندی کا اظہار ان دیہاتوں اور چرواہوں سے ملتا ہے اس سے بدبخت شہر کوسوں دور ہیں۔
اس سفر میں دلچسپ پہلو جو نظر آیا ہے وہ مارچ میں خواتین کی جگہ جگہ شرکت ہے اور جس طرح یہ خواتین مزاروں یا زیارت و ذِکرخانوں میں چوگان کرکہ دعائیں کرتی ہیں اسی طرح اس پیدل مارچ میں بھی وہی زہیرونک، وہی لولی، وہی ذِکر و گیت گنگاتی ہوئی روحوں کو راحت پہنچا رہی ہیں۔
یہ حوصلے اور جذبات دھرتی ماں کی عظیم سوغات ہیں جو خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہیں۔ سنگت گلزار دوست کو یہ عظیم نوازشیں بہت مبارک ہوں اور ہم دعا گو ہیں کہ دھرتی ماتا ہر قدم پر اسکی پُشت و پناہ بنے۔
میرے عزیز سنگت گلزار دوست اور انکے کامریڈوں کے نام شیخ ایاز کی شاعری میں پیغام ندر ہے؛
میرے دیدہ ورو، میرے دانشورو
پاؤں زخمی سہی، ڈگمگاتے چلو
راہ میں سنگ و آہن کے ٹکراؤ سے
اپنی زنجیر کو، جگمگاتے چلو
رود کش نیک و بد کتنے کوتاہ قد
سر میں بادل لیئے ہیں تہیہ کئے
بارش زہر کا، اک نئے قہر کا
ایک فرعون کیا، لاکھ فرعون ہوں
ڈوب ہی جائیں گے، ڈوب ہی جائیں گے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں