وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4610 دن ہوگئے جبکہ 30 اگست 2021 کو کوئٹہ سے جبری لاپتہ فیاض علی کی بیوی اور دیگر لواحقین کیمپ میں بیٹھے رہیں۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلیدہ سے سیاسی سماجی کارکن حاجی شیر محمد بلوچ، لال خان بلوچ اور دیگر شامل تھے۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج بلوچستان کے جتنے فرزندوں کو شہید کیا گیا یا جبری طور پر اغواء کرنے والوں میں کوئی اپنے بھی ہوں گے جو شعوری یا لا شعوری طور پر غداری کا مرتکب ہو رہے ہیں اور مخبری کر رہے ہیں، جو اپنے قوم کے ساتھ اور اپنے ان بھائیوں کے ساتھ جو اپنی زندگی اور ضروریات کو پیچھے چھوڑ کر اپنے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر پرامن جدوجہد کر رہے ہیں ایک بے ضمیر بے شعور بلوچ اگر ہمارے قوم کے اندر بیٹھ کر ہمارے نوجوان فرزندوں کے راستے میں ایک کانٹے کی مانند مانے جانے لگے اور ہر ایک کا فرض ہوتا ہے راستے کو صاف رکھنا ہے۔ ہم اپنے قوم کی ہر وہ بے شعور اور بے ضمیر لوگوں کو اپنے پیاروں کے بازیابی کے بارے میں آگاہ کریں جس کے لیے آج انہی بے ضمیر لوگوں کی وجہ سے کتنی مشکل پیش آ رہی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ متعدد سوالات ایسے ہیں جو اصل قاتلوں کو چھپا کر محض کٹھ پتلیوں کو سامنے لانے کی بھونڈی کوششوں کو بے نقاب کرتے ہیں زمانہ جانتا ہے کہ ڈیتھ اسکواڈ وہی کچھ کر رہا تھا اور کر رہا ہے جو اس سے ان مسلح ریاستی قوتوں نے کروایا جو انجان بنی بیٹھی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ رپورٹ عدالتی کمیشن نے جاری کی ہے اب بتائیں کہ پاکستانی ریاست کا آئین، قانون اور عدل و انصاف کا ایسا کونسا ادارہ یا فورم باقی رہ جاتا ہے جس سے بلوچ قوم خود پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ریاستی نسل کشی جرائم کے خلاف بین الاقوامی عدل وانصاف کے اداروں سے مداخلت اور انصاف کے حصول کے رجوع کرکے بغاوت اور غداری کی مرتکب ہو رہی.