وارث مُراد کا قلم سے بندوق تک کا سفر
تحریر: رگام بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
علم و شعور جو انسان کہلائے جانے والے ایک جاندار کو دوسرے جانداروں سے الگ اور اپنے وجود سے جڑے تکالیف، دکھ، درد، غرض و مفادات سے بیگانہ کرکے مسیحا اور ایک انمول ہیرے کی طرح تراش کر انسانیت کے بقاء کے لیے پیش کرتا ہے۔ علم و شعور کے اس عظیم سفر میں قلم کا بنیادی کردار ہوتا ہے جو علم تحقیق کے ذریعے اہم خیالات و ایجادات کی ترویج کرکے روشنی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
ایک باشعور و باعمل انسان قلم کو ہتھیار بنا کر اپنے ارد گرد کے ماحول سمیت حق و حقوق کو قلم کی روشنائی کے ذریعے لوگوں تک پہنچا کر ان کے بقاء کی جنگ لڑتا ہے اور قلم کے اس طاقت کو قائم کرنے کی اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لاتا ہے لیکن ایک جگہ آکر قلم بھی خاموش ہوجاتی ہے۔ وہ ایک خوفناک ہیولے کی مانند قائم حیوانیت کے آخری حدوں کو پار کرنے والے ظلم وجبر کی وہ کالی گھٹائیں ہیں جو کسی معصوم و مظلوم کے قلم سمیت کسی بھی آہ و بکا سے نہیں چھٹتی اور اپنے طاقت کے گھمنڈ میں ہر ذی روح کو تہس نہس کرنے پر تُلی ہوتی ہے۔
جب اس طاقتور ظالم قوت کے سامنے قلم سمیت دیگر تمام پرامن ذرائع مفلوج ہوجاتے ہیں تو وہاں سے قلم کی شعوری ساتھی کلاشنکوف جو علم و شعور اور قلم کے سائے میں تربیت پا کر ظلم کے ان بے رحم کالی راتوں کا مقابلہ ان کے کیے گئے اعمال کے سامنے انہی کے زبان میں مزاحمت کرکے جواب دیتا ہے تو باشعور نوجوان قلم و کلاشنکوف کو بوسہ دے کر اپنے قوم کے ماؤں، بیٹے، بیٹیوں، بہن، بھائیوں کی دفاع میں اپنا جیون ساتھی بناکر ظالم کے لیے موت کا پیغام بن کر اس کے منحوس ناپاک قدموں کو اپنے سرزمین سے باہر دھکیل کر خود اپنے قلم و کلاشنکوف کے ساتھ سرخ روح ہوتے ہیں۔
ہم اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ قلم طاقتور ہے، قلم جب لکھتا ہے تو تاریک ذہنوں کو نور سے منور کرتا ہے، انہیں سوچنے سمجھنے اور حق و باطل کا فرق بتا دیتا ہے، قلم ہمیں باشعور بنا دیتا ہے اور یہی شعور ہمیں اس عہد تک لے آتا ہے کہ ناانصافیوں کا تدارک اب قلم سے ممکن نہیں تو ہم ہتھیار کو ہی بقاء کا ضامن سمجھ کر اپنی سرزمین کے لیے اپنی مستقبل کو قربان کرنے پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔
آج بلوچ مزاحمت میں اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی ہے، کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینئر کوئی وکیل ہے تو کسی نے ماسٹرز کیا ہوا ہے کوئی پی ایچ ڈی ہولڈر ہے تو کوئی استاد، گذشتہ دنوں قلات میں پسنی کلانچ سے تعلق رکھنے والا تعلیم یافتہ اور نوجوان بلوچی شاعر وارث مراد ایک محاذ پر شہید ہوگئے اور پچھلے سال ARID University راولپنڈی کا طالب علم آفتاب بلوچ بھی ایک محاز پر شہید ہوگیا، سوچیئے آخر ایسا کیا ہے جو ایک انتہائی تعلیم یافتہ شخص کو باغی بنا دیتا ہے، ذاتی مستقبل کی فکر سے لاتعلق کرکے پہاڑوں کا رخ کرنے پر مجبور کردیتا ہے، وہ سب کچھ چھوڑ کر ہنسی خوشی ہتھیار اٹھاتا ہے؟
میں بتاتی ہوں
وہ ہے ظلم، ناانصافیوں کا تسلسل، وہ ہے نسل کشی، وہ ہے لاپتہ افراد کا دکھ، وہ ہے سڑکوں پر بلکتی بلوچ بہنیں، وہ ہے منتظر روتی ہوئی ماں، وہ ہے مسخ شدہ لاشیں، وہ ہے بے گناہ بلوچوں کی اجتماعی قبریں، وہ ہے برمش کی چیخیں اور حیات کا عکس، وہ ہے نورجان کی خودکشی، کیا کیا لکھوں؟ ایسے واقعات کا تسلسل ہی شہداد، احسان آفتاب اور وارث مراد کو جنم دیتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں