نیشنلزم یا گروہیت پسند؟
تحریر: سراج نور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہم نیشنلزم کے حامی ہیں، عوام کے سامنے تقریروں تحروں میں ہم قوم پرستی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اعمال ان کے متضاد کیوں؟کبھی کبھی انسان اس اُلجھن میں پھنس جاتا ہیکہ ہمارے علم اور عمل کا کوئی رشتہ ہے یا ایک دوسرے کیلئے اجنبی ہیں، کبھی لگتا ہے ہمارے عمل اور علم میں دور دور تک کوئی رشتہ ہی نہیں اگر رشتہ ہے تو وہ بھی دوستانہ تو نہیں ہوسکتا۔
یہاں المیہ یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام تعلیم نے ہمیں بس چیزوں کی معنی تک محدود کر رکھا ہے، ہم کسی فلاسفر کی کتاب پڑھ کر خود کو فلاسفر سمجھنے لگتے ہیں یا کسی فلاسفر کے لفظوں کو کوٹ کرکے ہر عام اور خاص جگہ میں ان الفاظ کو استعمال کرکے خود کو افلاطون سمجھنے لگ جاتے ہیں یا فرائیڈ کی کتاب کو پڑھ کر خود کو سائیکلوجسٹ سمجھتے ہیں، شاید ہم نے کبھی یہ سوچا نہیں کہ اگر ایک فلاسفر کی کتاب پڑھنے سے ہم فلاسفر یا فرائیڈ کی کتاب پڑھنے سے سائیکالوجسٹ بن پاتے تو یونیورسٹی میں 4 سال بی ایس کا 2 سال ایم فل اور تین کے پی ایچ ڈی کا پروگرام نہیں ہوتا،
اسی طرح ہم کسی طلباء تنظیم میں شمولیت کرکے خود کو نیشنلزم کا ٹھیکیدار سمجھ کر دوسروں کو ملک دشمن، غدار، پتہ نہیں کیا کیا سمجھتے ہیں، کسی طلباء تنظیم کا حصہ بن کر یا نیشنلزم کا معنی رٹا لگاکر یاد کرنے سے کوئی قوم پرست نہیں ہوتا، قوم پرست ہونے کی حقیقی لفظوں میں قربانی دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ہر چیز کو وسیع نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، المیہ یہ ہے بلوچستان میں کسی بھی طلباء تنظیم کے ذمہ داروں سے بیٹھ کر بات کریں وہ سارے نیشنلزم کے نظریہ کے دعوے دار ہیں، لیکن ابھی تک ان لوگوں کا سوچ گروہیت سے نہیں نکل سکا، اب تک ان میں قومیت سے زیادہ گروہیت کا سوچ ہے، حیرانگی تب ہوتی ہے جب نیشنلزم جیسے وسیع نظریہ کو گروہیت کے سانچے میں ڈھال کر اور خود کو تسلیاں دیکر کہ میں گروہیت پسند نہیں قوم پرست ہوں، کیا یہ قوم کے ساتھ ساتھ خود کو فریب دھوکہ نہیں دے رہے ہو؟
میں نے کبھی یہ نہیں پڑھا کہ قوم پرستی کا دعوے دار اپنے ممبروں کو ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے ہیں، جہاں تک میرا خیال ہے اگر اِنسان نیشنلزم جیسے وسیع نظریہ کو فالو کریں وہاں اختلافات، اَنا، ضد، حسد اپنے وجود کو کھو دیتی ہے، جس طرح تاریکی روشنی کو دیکھ کر اپنا وجود کھو دیتا ہے اور جھوٹ سچ کو دیکھ کر، اسی طرح اگر آپ قوم پرستی کے دعوے دار ہیں تو اختلافات گروہیت خود بہ خود ختم ہوجاتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ آپ کسی اور تنظیم سے یا گروہ سےتعلق رکھتے ہو لیکن سوال یہ ھیکہ آپ اپنے ممبروں کو کیا تربیت دے رہے ہو، ان لوگوں کی ذہنی نشوونما کس طرح کی جارہی ہے۔
ہمارے ہاں طلباء تنظیم فلمی ڈاکوؤں کی طرح ہوتے ہیں، جس طرح ایک ڈاکو کا گروہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہاں سے وہاں تک میرا ایریا ہے آپ وہاں گُھس نہیں سکتے اگر کوشش کی تو آپ کا حال بُرا ہوگا، جس طرح ایک پولیس تھانہ کا اپنا حدود ہوتا ہے اسی طرح ہمارے طلباء تنظیموں کا بھی اپنا حدود اور ایریا ہوتا ہے، یہ ایریا دیکھ کر یہ سوال ہر سوچ رکھنے والی سوچ کو جھنجھوڈ دیگا کہ یہاں قوم اور قوم پرستی نہیں بلکہ گروہیت کا تعلیم دیا جارہا ہے وہ الگ بات ہے کہ ہمارے نام نہاد دانشور، پروفیسر، ادیب خوابِ خرگوش سورہے ہیں،
ایک بات سچ ہے کہ دُنیا میں تبدیلی اس وقت آتی ہے کہ ہماری سوچ اور عمل ایک ہو، اگر ہم قوم پرستی کا دعوا کرتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ گروہیت کی سوچ سے نکل کر ایک قوم پرست کی طرح سوچنا شروع کریں، کیونکہ ایک حقیقی قوم پرست کو بار بار یہ کہنا نہیں پڑتا کہ میں قوم پرست ہوں، میں جو کچھ کررہا ہوں قوم کیلئے، اِنسان کی عمل ان تمام چیزوں کو واضح کردیتی ہیکہ وہ قوم پرست ہے کہ نہیں اللّہ نہ کرے کسی بھی قوم پرست قوم دوست کیلئے یہ دن نا آئے کہ اُسے یہ صفائی دینے کی ضرورت پڑ جائے کہ میں قوم پرست ہوں، اگر آپ خود کو قوم پرست مانتے ہو تو حقیقی لفظوں میں قوم اور قومیت کا دعویٰ کرتے ہو، اپنی کاز اپنی قوم اور اپنی مخلصی لگن سے اُتنا سچا اور ایماندار بن جاؤ کل تمہیں صفائی دینے کی ضرورت نہ پڑے، اور پوری قوم آپ کا قوم پرستی کا ثبوت دے۔
حقیقی لفظوں میں قوم اور قومیت کو سمجھنے والوں نے اپنے نوجوان بچوں پر بارود باندھ کر اس وطن کے حوالے کردیا اور ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے، وہ عام انسان جیسوں کو آج دُنیا حضرت ابراھیم سے تشبیہہ دیتا ہے۔ وہی تھے قوم پرست جنہوں نے کبھی قوم کے سامنے صفائی دینے کی کوشش نہیں کی لیکن آج پوری قوم یہ گواہی دے رہی ھیکہ وہ قوم پرست تھا، کل دُنیا یہ گواہی دیگی کہ وہ قومی نہیں عالمی ہیرو تھا، وہ اکیسوی صدی کا جوزے مارٹی اور چے تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں