بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے زاہد بلوچ کی گمشدگی کو آٹھ سال مکمل ہونے پر کہا ہے کہ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پاکستان فکر و شعور سے لیس چٹان جیسی حوصلے کے مالک زاہد کو شکست دینے میں ناکام ہو چکا ہے۔ زاہد بلوچ قومی تحریک آزادی میں سرگرم کردار ادا کرنے اور طلباء کی سیاست کو درست سمت دینے کی قیمت آٹھ سالوں سے زندان میں قید کی صورت میں ادا کررہے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ انقلاب کا داعی اور آزادی کا متوالا، زاہد بلوچ کی صورت میں پاکستان کے غیرقانونی، غیرانسانی زندان میں قید ہے۔ زاہد بلوچ اپنی کردار اور شعوری پختگی سے طلبا سیاست پر دور رس اثرات مرتب کررہے تھے۔ پاکستان ان کی فکری سیاست اور نیشنلزم کے نظریے سے خائف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زاہد بلوچ کو منظر سے ہٹا کر طلبا سیاست کو ایک عظیم لیڈر سے محروم کر دیا لیکن زاہد بلوچ اپنی صلاحیتوں اور عملی سیاست سے اپنے متبادل پیدا کرچکے ہیں جو میدان میں سرگرم عمل اور تحریک آزادی کے لیے طلبا کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان دیہات میں بستا ہے، اس حقیقت کا ادراک کرکے زاہد بلوچ نے قومی سیاست کو شہروں اور بڑی درسگاہوں تک محدود کرنے کے بجائے دیہی و دور دراز علاقوں تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کے مثبت اثرات آج قوم کے سامنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طلباء کسی بھی قوم کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ بلوچ طلبا بلوچ قومی سیاست میں اپنا حصہ بخوبی نبھارہے ہیں۔ پاکستان قومی بقا و شناخت کی جدوجہد سے دور رکھنے کیلئے طلبا رہنماؤں کو پابند سلاسل یا قتل کررہاہے۔ پاکستان نے زاہد بلوچ اور ذاکر مجید جیسے رہنماؤں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا اور شفیع بلوچ، قمبرچاکر اور الیاس نذر جیسے رہنماؤں کو دوران حراست شہید کیا ۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آج بھی بلوچ طلباں کو جبری لاپتہ اور شہید کیا جا رہا ہے۔ حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی اور احتشام کی شہادت اس کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ پاکستان کی جانب سے بلوچوں کو زیر کرنے اور تعلیم سے دور رکھنے کی حربے اور سازشیں ہیں۔