میرے دونوں بیٹوں کو سی ٹی ڈی اہلکار اٹھا کر لے گئے – نور بی بی

533

ہفتے کے روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک اور لاپتہ افراد کے متاثرہ لواحقین نے پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا –

بلوچستان کے علاقے مچھ سے تعلق رکھنے والی خاتون بی بی نور نے کہا کہ میں راشد علی اور ارشد علی ولد محمد علی سکنہ مچھ کی والدہ ہوں-

انہوں نے کہا کہ میرے دو نوجوان بیٹوں کو ریاستی اہلکاروں نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا – گذشتہ سال 14 ستمبر کی شام 7 بجے کے وقت نیو اڈہ مچھ سے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے میرے آنکھوں کے سامنے میرے بچوں کو گرفتار کرکے لے گئے اور تاحال لاپتہ ہیں – انہوں نے کہا کہ اس وقت میں ڈاکٹر نصیب اللہ کے ہاں گئی تھی اور یہ واقعہ وہاں پیش آیا –

بی بی نور نے کہا کہ میں ایک بیوہ عورت ہوں ، اپنا پیٹ کاٹ کر میں نے اپنے بچوں کی پرورش کی ہے ۔ غربت کی وجہ سے میں اپنے بڑے بیٹے کو 8 جماعت سے آگے پڑھا نہیں سکا-

انکا کہنا تھا کہ میرا 24سالہ بیٹا 6 جماعت کے بعد تعیلم آگے جاری رکھ نہیں سکا اور محنت مزدوری شروع کرکے گھر کا چولہا جلایا اسکے بعد انہوں نے اپنے دکان میں خود کام شروع کر دیا-جبکہ دوسرا بیٹا ارشد علی جسکی عمر 15 سال ہے اور آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے اسکول کے بعد ہمیشہ اپنے بھائی کا ہاتھ بٹانے کے لیے دکان جایا کرتا تھا –

انہوں نے کہا کہ میرے بیٹوں کو سی ٹی ڈی اٹھا کر لے گیا- بی بی نور نے کہا کہ میں دل کا مریضہ ہوں اور میرے بڑھاپے کا سہارا میرے دونوں بیٹے جو چھ مہینوں سے بنا کسی جرم کے عقوبت خانوں میں پڑے ازیت سہ رہے ہیں – مچھ میں دونوں بیٹیوں کے ساتھ بنا کسی مرد کے اکیلی ہونے کی وجہ سے یہاں اپنے رشتہ داروں کے گھر کے قریب کرائے ایک مکان میں رہتی ہوں –

انہوں نے کہا کہ دونوں بیٹوں کی جبری گمشدگی کے بعد اپنے دونوں بیٹیوں کے ساتھ در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہوں -میں ایک اکیلی عورت ان معصوموں کو کہاں کس کے در پہ چھوڑ دوں؟ انکا کہنا تھا کہ دو دن پہلے اپنی چھوٹی بیٹی کو ڈاکٹر کے پاس لے گئی تو پتہ چلا کہ اس کے گردوں میں پتری ہے میں اپنے بیمار کہاں لے جاؤں؟ خدارا میرے دونوں بیٹوں کو رہا کر دیا جائے –